مختلف تھیوریز میں سے ایک تھیوری جو کراچی میں بکھرے کوڑے کے معاملے پر پورا اترتی ہے وہ یہ ہے کہ ری سائیکلینگ کا کام چند بڑے ٹھگوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے سیکڑوں ملازمین صفائی اور دوبارہ فروخت کیے جانے کے قابل خالی بوتلوں اور کینز اکھٹا کرنے کے لیے کچرا اٹھنے ہی نہیں دیتے۔ یہ بدمعاش اپنی بدمعاشی رکھنے کے لیے شہری افسران اور سیاستدانوں کو پیسہ کھلاتے ہیں، یوں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر جمع ہوجاتے ہیں۔ جن غیر ملکی سرمایہ کاروں نے شہر کی صفائی کا ٹھیکا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ان کی خوب حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
ان مسائل کا حل نہ تو مشکل ہے اور نہ ہی اس کے لیے بھاری وسائل درکار ہیں۔ اگر سیاستدانوں کو پانی کے لیے قطاروں میں کھڑا کردیا جائے، اپنے علاقوں کی کچرا کنڈیوں کی صفائی کروائی جائے اور بس کے ذریعے سفر کروایا جائے تو میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کراچی کے مسائل کو حل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے لگی۔
مگر چونکہ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا اس لیے میں وفاقی حکومت کی مداخلت کا خیر مقدم کروں گا۔
یہ مضمون 21 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔