تاہم، یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانی کا یہ طریقہ پنجاب میں نہیں چل پایا ہے اور جس طرح ماضی میں کھو کر شہباز شریف کو یاد کیا جارہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب چند افراد یہ سوال بھی کھڑا کرسکتے ہیں کہ پنجاب کو مضبوط اداروں کی نہیں، بلکہ آدمی کی ضرورت ہے۔
آخری مگر اہم چیز یہ ہے کہ یہ پوری صورتحال ایک بار پھر ہماری جماعتوں کی دوسرے درجے کی قیادت وجود میں لانے کی نااہلی کو ظاہر کرتی ہے۔ بینظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی برسوں تک سرگرم رہی لیکن اس دوران انہیں کبھی بھی ایک ایسی شخصیت دستیاب نہ رہی جو اتنی قد آور یا مضبوط ہوتی کہ پنجاب کا چہرہ کہلا سکتی۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب اسی مسئلے کا سامنا پی ٹی آئی کو ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسا شخص دستیاب ہی نہیں ہے جو اتنی اہلیت اور اعتماد کا حامل ہو کہ پورے صوبے کا نظام سنبھال سکے۔
اس اعتبار سے نواز شریف اپنے بھائی کی موجودگی کے سبب کافی خوش قسمت رہے۔ چھوٹے بھائی میں بڑے بھائی والے کرشماتی پہلو کی کمی تھی اور یوں ان سے خطرہ بھی کیونکر ہوتا، لیکن انہیں صوبے کا انتظام سونپ کر ان پر ایک حد تک اعتماد بھی کیا گیا۔ اپنے بھائی سے خونی رشتہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ بہت ہی کم لوگ ان پر تنقید یا انہیں کمزور بنانے کی جرات کرپاتے۔
اگر عمران خان کو قابلِ اعتماد (بزدار سے زیادہ اہل) شخص مل بھی جاتا ہے تو بھی ان کی جماعت کے دیگر لوگ خود عہدہ حاصل کرنے کی پاداش میں نئے شخص کو بھی کمزور بنانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
داخلی لڑائی سے متعلق پارٹی کلچر کی وجہ سے کسی دوسری راہ کا انتخاب بھی ناممکن بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر جہانگیر ترین بھی نااہل نہ ہوئے ہوتے اور انہیں یہ عہدہ مل جاتا تو انہیں بھی مسلسل مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ جب تک عمران خان اقتدار میں ہیں انہیں مسلسل توقعات پر پورا اترنے والے ایک ایسے نمبر ٹو یا چھوٹے کی تلاش جاری رکھنی ہوگی جو حقیقی زندگی کے چھوٹے (یعنی شہباز شریف) کی جگہ لے سکے۔
یہ مضمون 24 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔