قومی حکومت کے قیام کی افواہیں بھی گردش میں رہی ہیں۔ تاہم اپوزیشن کے ساتھ مل کر بنایا گیا قومی حکومتی نظام ظاہر ہے کہ زیادہ تابع نہیں ہوسکتا اور یہ لڑائی جھگڑوں سے بھرپور اپنے لیے کھودے گئے گڑھے سے کسی طور پر کم نہیں ہوگا۔ ان تمام رکاوٹوں کے پیش نظر متوسط طبقے کے سیدھے سادے حلقوں میں اب بھی مقبول حکومت کے نااہل چہرے کا بوجھ سر پر لیے حکومت کو کھینچتے رہنا ہی شاید ایک سب سے اچھے آپشن کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
2003ء کے دھاندلی شدہ ایوان کو اس کی مدت پوری کروانی میں مدد فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اس وقت طویل عرصے سے جنرل اور صدارت کے عہدے پر فائز صدر کی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی شدید مخالفت حکومت برقرار رکھنے اور اسے طویل وقت تک کھینچنے میں مددگار ثابت رہی۔ آیا اسی قسم کی مخالفت اس بار بھی کام دکھا سکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
سویلین چہرے والی حکومتوں کی مختصر مدتیں اور بُری حکمرانی دراصل بیرونی دخل اندازی اور چالبازیوں کی بے کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔ ماضی کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ چالوں کے نتیجے میں وجود پانے والے ڈھانچوں کے مقابلے میں منتخب حکومتیں، اپنی تمام تر حماقتوں کے باوجود، پھر بھی بہتر رہتی ہیں۔
لہٰذا غیر منتخب کھلاڑیوں کے لیے بہترین پالیسی یہی ہے کہ وہ سیاست سے دور رہیں اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے حقیقی اکثریت کو ایوان تک پہنچنے دیں۔
اگر پہلے سے یہ سوجھ بوجھ ہوتی تو گزشتہ 70 برسوں کے دوران ہم 7 سازشی طریقوں کے ذریعے 2 درجن رہنماؤں کو جبراً عہدے سے فارغ ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے۔
یہ مضمون 24 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔