یہی سماجی، معاشی اور جغرافیائی رکاوٹیں کینسر میں مبتلا خواتین کی زندگی کا فیصلہ کردیتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ محدود معاشی وسائل اور خواندگی کے ساتھ دُور دراز کے علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔
بریسٹ کینسر میں مبتلا غریب خاندانوں کی خواتین طویل سفر اور مہنگے علاج معالجے کے مرحلے سے کتراتی ہیں۔ اس طرح پسماندہ علاقوں کی خواتین کی بروقت تشخیص اور علاج نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ صحتِ نسواں کی سہولیات کے لیے کسی ایک نہیں بلکہ کئی مختلف شعبوں میں بہتری لانا ہوگی۔
اگر بریسٹ کینسر کے ابتدائی مرحلے میں ہی تشخیص ہوجائے تو زندگی بچائی جاسکتی ہے کیونکہ اس طرح علاج میں بہت کم پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ کینسر کے ابتدائی مرحلے میں اس کی تشخیص ہوجانا بلاشبہ کامیاب علاج کی پہلی شرط ہے۔ چنانچہ دیہی علاقوں کے صحت کارکنان کو ابتدائی آثار اور علامات پہچاننے کی تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں خود تشخیصی عمل کی آگاہی اور اسے فروغ دینا بہت ہی ضروری امر ہے۔
صحت کی خواندگی کا کردار بھی بہت اہم ہے، خواتین کو معلوم ہونا چاہیے کہ بظاہر غیر نقصاندہ اور بنا درد کے سینے میں پیدا ہونے والی گانٹھوں (بریسٹ لمپس) کا تعلق کینسر سے بھی ہوسکتا ہے۔
عوامی سطح پر آگاہی پھیلانے کے ساتھ ساتھ خواتین کو روٹین میموگرافی کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ بریسٹ کینسر کی بروقت تشخیص ممکن ہوسکے۔ ضلعی ہیڈکوارٹرز میں موجود ہسپتالوں کو اسپیشلائزڈ ہسپتالوں سے جوڑنا بھی کافی سودمند ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ضلعی سطح کے ہسپتالوں تک زیادہ لوگوں کو رسائی میسر ہوتی ہے۔
پاکستان میں اکثر خواتین کی زندگیاں غربت کی وجہ سے داؤ پر لگی ہوتی ہیں ایسے میں بریسٹ کینسر میں مبتلا خواتین کو صحت انشورنس فراہم کرکے غیر معمولی مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
یہ مضمون 02 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔