پاکستانی سیاست نامی اس بھول بھلیاں میں جہاں ہر ایک مسلسل خلائی مخلوق سے رابطے، ان سے اپنا سیاسی تجزیہ اور پیش گوئیاں حاصل کررہا ہوتا ہے، وہاں وہ سیاستدان جو اقتدار گرانے پر بظاہر پُرعزم دکھائی دیتے ہیں انہیں ’دیگر‘ کا سمجھایا بجھایا تصور کیا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ مولانا کا ان کی طرف جھکاؤ دیگر کے مقابلے میں ہمیشہ سے زیادہ رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ 2014ء میں عمران خان کی طرف سے کی گئی بے وقوفی کا فیصلہ پارٹی اتفاق رائے کا صلہ نہیں تھا بلکہ یہ فیصلہ ان کا تھا جو عمران خان کے کانوں میں کھسر پھسر کر رہے تھے۔ ان کی پارٹی میں تو اس فیصلے پر اتنے زیادہ اختلافات تھے کہ خیبرپختونخوا کے پارٹی عہدیداروں نے صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ دینے سے بھی انکار کردیا تھا، جبکہ وہ افراد جو بڑی مشکل سے قومی اسمبلی تک پہنچے تھے ان کے پاس سوائے استعفی دینے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا، جن میں سے اچھی خاصی تعداد ایسے اراکین کی بھی تھی جو (آف دی ریکارڈ) ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے اور افسوس کا اظہار کیا۔
اس وقت عمران خان سے کیا وعدہ کیا گیا تھا، اس بارے میں کچھ خبر نہ ہوسکی۔ مگر جو کچھ ہوا اس کا وعدہ تو بالکل بھی نہیں کیا گیا تھا اور بالآخر عمران خان نئے انتخابات کا مطالبہ منوائے بغیر کنٹینر سے اتر ہی آئے، جس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ حکومت اور وردی والوں کے درمیان تناؤ کے باوجود بھی وردی والے حکومت کو گھر بھیجنے کے موڈ میں نہیں تھے۔
لہٰذا سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ اگر کوئی مولانا کے کانوں میں سرگوشی کرکے وعدے کر رہا ہے تو مولانا ان پر بھروسہ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس وقت سرگوشیوں میں حکومت گھر بھیجنے کی طرف اتنا بھی جھکاؤ نظر نہیں آسکتا جتنا کہ 2014ء کی سرگوشیوں میں نظر آسکتا تھا؟ شاید پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اسی سوال کے جواب کی تلاش میں ملاقاتوں پر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
یہ مضمون 8 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔