اس عمل کو ’بھوک پر سیاست‘ کے طور پر بھی بیان کیا جاسکتا ہے، کیونکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جیسا شدت پسند اور سخت گیر گروہ حکومت کی مدد کے لیے آگے آگیا ہے اور منظم انداز میں ان چھوٹی ذات والے ہندوؤں کی پسماندہ بستیوں کو ہدف بنا رہا ہے تاکہ انہیں اجتماعی ہندو شناخت کے دائرے میں لایا جاسکے۔ آر ایس ایس اپنے اسکولوں، طبّی کیمپوں اور دیگر فلاحی اسکیموں کا جال ان بستیوں میں پھیلا رہی ہے تاکہ مذہبی تبدیلی کے اس عمل کو روکا جاسکے جسے یہ گروہ ہندو قوم پرستی کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔
پاکستان میں بعض خیراتی ادارے کالعدم شدت پسند گروہوں سے منسلک ہیں، جو یہاں بالخصوص سندھ اور پنجاب کے ایسے حصوں میں ہندو بنیاد پرست گروہ کے نقش قدم پر چلتے آ رہے ہیں جہاں اقلیتوں کی آبادیاں موجود ہیں۔ تاہم ان گروہوں کی سرپرستی میں چلنے والے خیراتی پروگراموں کا دائرہ کار آر ایس ایس اور ان سے وابستہ تنظیموں کے پروگراموں کے مقابلے میں کافی محدود ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان گروہوں کی سرگرمیوں پر عالمی سطح پر کڑی نگرانی رکھی جاتی ہے۔
گزشتہ انتخابات کے دوران بھارت میں بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے بڑے ہی مؤثر انداز میں بھوک کا کارڈ استعمال کیا اور غریب ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
دوسری طرف 2018ء میں پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں غربت کو ایک اہم سیاسی مسئلے کے طور پر اٹھایا ہی نہیں گیا تھا بلکہ حکمران جماعت کی توجہ کرپشن کے خاتمے پر ہی مرکوز رہی۔ اس موضوع سے عوامی حمایت تو حاصل ہوتی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک کے لیے کرپشن روکنے کے لیے ایسی منظم تبدیلیوں اور اقدامات کو حقیقت کا روپ دینا کھڑی چٹان چڑھنے کے برابر ہے۔ علاوہ ازیں، کرپشن مخالف نعرے زیادہ عرصے تک پائیدار سیاسی حمایت کے حصول میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتے۔
کارکردگی دکھانے کے لیے بڑھتے دباؤ کو ہلکا اور حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے حکومتیں لنگر کھولنے اور سستی روٹی کی فراہمی جیسے مقبولِ عام اقدامات کا سہارا لینا شروع کردیتی ہیں لیکن ان سے 20 کروڑ کی آبادی والے ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
نوبیل انعام جیتنے والوں کے پاس پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں کے لیے ایک اچھی تجویز موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ، اگر یہ ممالک حقیقتاً بھوک مٹانا چاہتے ہیں تو انہیں جہالت، نظریے اور جمود سے لڑنا ہوگا۔
یہ مضمون 20 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔