پاکستان ہر گزرتے دن کے ساتھ کھیلوں میں پیچھے ہو رہا ہے جس کی وجہ ٹیلنٹ کی کمی نہیں بلکہ ملکی کھیلوں کی فیڈریشن پر براجمان وہ سربراہان ہیں جنہوں نے سرکاری خرچ پر غیر ملکی دورے تو کیے لیکن کھیلوں کی بہبود کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ایسی ہی ایک شخصیت ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عارف حسن ہیں جو 2004ء سے پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ اس دوران مختلف حکومتیں آئیں لیکن کسی نے بھی عارف حسن سے باز پرس نہیں کی۔
ناجانے کب سے یہ گندا کھیل کھیلا جارہا ہے کہ ایسوی ایشن کے عہدیداران اپنے من پسند ایسے ایک یا 2 کھلاڑیوں کو وائلڈ کارڈ انٹری دلوا دیتے ہیں جن کے بارے میں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکیں گے، لیکن چونکہ وہ ’گڈ بکس‘ میں ہوتے ہیں اس لیے انہیں خوش کرنے کے لیے اس غریب قوم کے لاکھوں روپے جانتے بوجھتے ضائع کردیے جاتے ہیں۔
پاکستان ہاکی جو ہمارے لیے کبھی فخر کی علامت ہوا کرتی تھی، اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ اس بار اولمپک میں کوالیفائی کرنے کی امیدیں بہت معدوم ہیں اور اگر خدانخواستہ انعام بٹ بھی اس میگا ایونٹ میں شرکت کے لیے کوالیفائی نہ کرسکے تو پھر پاکستان کا اولمپک کے کھیلوں میں حصہ لینے کا فائدہ ہی کیا ہے؟
وزیرِاعظم عمران خان تو خود ایک اسپورٹس مین ہیں، اور کھیلوں کی اہمیت کو بہت خوب جانتے ہیں، مگر بدقسمتی سے اب تک ان کے دور میں کھیلوں کے شعبے کی بہتری کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوسکے ہیں۔
میں وزیرِاعظم اور صدرِ پاکستان سے بھرپور اپیل کرتا ہوں کہ فوری طور پر انعام بٹ کے لیے ایک خطیر رقم جاری کی جائے تاکہ یہ ریسلر اولمپک کے کوالیفائر میں شرکت کے لیے اپنی تیاری کرسکے۔
اسی طرح وہ اس بات کا خاص نوٹس لیں کہ کھیلوں کی ایسوسی ایشن میں کون لوگ کیا کررہے ہیں؟ کیا وہ پروفیشنل ہیں بھی یا نہیں؟ ان کی کارکردگی کیا ہے؟ ان تمام نااہل لوگوں کو فارغ کرنے کی اشد ضرورت ہے جو کھیلوں کے لیے فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بن رہے ہیں، کیونکہ ان غلطیوں کی وجہ سے ملک میں کھیلوں کو فروغ ملنا تو دُور کی بات بلکہ جن کھیلوں میں ہم اچھے تھے اب وہاں بھی پیچھے سے پیچھے جاتے جارہے ہیں۔