Dawn News Television

شائع 30 اکتوبر 2019 01:26pm

وکلا کی جانب سے لڑکی پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کے علاقے شکر گڑھ کی کچہری میں تلخ کلامی پر وکلا نے لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔

سوشل میڈیا پر وائرل واقعے کی ویڈیو میں ایک وکیل کی جانب سے لڑکی کو لات مارتے دیکھا جاسکتا ہے۔

وکیل کے تشدد پر لڑکی نے بھی اپنی چپل دے ماری، ، جبکہ اس دوران پولیس اہلکار اور دیگر لوگ تماشا دیکھتے رہے۔

امرت شہزادی نامی لڑکی کے مطابق کچری میں موجود چند وکلا اسے گھسیٹ کر باہر لائے اور اس پر بہیمانہ تشدد کیا۔

لڑکی نے اپنے بیان میں بتایا کہ تشدد کی وجہ سے اس کے کپڑے پھٹ گئے، جبکہ بازو اور ٹانگ پر چوٹیں بھی آئی۔

مزید پڑھیں: لیڈی پولیس کانسٹیبل نے ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب کی کہانی جھوٹی قرار دے دی

پولیس نے لڑکی کے چچا زاد بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا، تاہم ملزمان کی گرفتاری اب تک عمل میں نہ آسکی۔

ملزمان کو گرفتار نہ کیے جانے پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی واقعے کا نوٹس لے لیا اور پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے ڈی پی او نارووال سے رپورٹ طلب کرلی۔

دوسری جانب وکلا نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات مسترد کرتے ہوئے امرت شہزادی کی طرف سے ساتھیوں پر حملہ کرنے کا الزام عائد کردیا۔

واضح رہے کہ موضع شاہ پور بھنگو کی رہائشی امرت بی بی مقدمے کی پیشی پر عدالت آئی تھی جس پر مخالف وکلا نے کیس واپس نہ لینے پر لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

خیال رہے کہ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ ماہ شیخوپورہ کی تحصیل فیروز والا کی کچہری میں بھی پیش آیا تھا، جہاں ایک مرد وکیل نے لیڈی پولیس کانسٹیبل فائزہ کے ساتھ بد تمیزی کی تھی اورانہیں تھپڑ مارا تھا۔

وکیل احمد مختار کی جانب سے لیڈی کانسٹیبل کو تھپڑ مارنے کے اس واقعے پر سوشل میڈیا پر کافی بحث چھڑگئی تھی اور خاتون کو انصاف دلوانے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شیخوپورہ: تشدد کا نشانہ بننے والی لیڈی کانسٹیبل کا استعفیٰ دینےکا فیصلہ

واقعے کے بعد خاتون کانسٹیبل کی جانب سے ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میں نے پولیس فورس میں شمولیت خدمت کے تحت کی تاہم ایک طاقت کے نشے میں چور وکیل نے مجھے تھپڑ مارا‘۔

خاتون کانسٹیبل فائزہ نے بتایا تھا کہ شک کی بنیاد پر آیف آئی آر ختم کردی گئی اور عدالت نے ملزم احمد مختار کو بری کردیا۔

بعدازاں تشدد کا نشانہ بننے والی لیڈی پولیس کانسٹیبل نے ’انصاف نہ ملنے کی امید‘ اور ’غیرمعمولی ذہنی دباؤ‘ کے پیش نظر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

Read Comments