شیخ زاید بن سلطان النہیان ایک خلیجی ریاست کے سربراہ ہیں۔ اردو اخبارات میں ان کا نام عموماً زید لکھا جارہا ہے، شاید اس لیے کہ اردو میں زاید منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے ضرورت سے زائد۔ اردو میں زائد کا مطلب ہے زیادہ، فضول، بچا ہوا۔ اور زائیدہ فارسی میں صفت ہے جس کا مطلب ہے پیدا کیا ہوا، جَنا ہوا۔ نوزائیدہ اردو میں عام ہے لیکن شیخ زاید فارسی کا نہیں عربی کا لفظ ہے۔
کراچی میں شیخ زاید کے نام پر اسپتال بھی ہے اور ایک جامعہ بھی۔ چنانچہ انہیں شیخ زید نہیں لکھنا چاہیے۔ لیکن ان کی کنیت ’النہیان‘ کا کیا مطلب ہے؟ اسلام آباد سے ضرار خان نے خیال ظاہر کیا ہے کہ نہیان کا مصدر ’نہی‘ ہوسکتا ہے۔ ایسا ہی ہے یعنی ’نہی عن المنکر‘۔ برائیوں کی نفی کرنے والا، روکنے والا۔ تاہم ایک عربی دان نے اس کا مادہ ’نہایت‘ بتایا ہے جو عربی میں ’نہایہ‘ لکھا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ کسی بھی کام کو انتہا تک پہنچانا۔
منیٰ میں دو بورڈ لگے ہوئے ہیں ’البدایہ اور النہایہ‘۔ یعنی ابتدا اور انتہا۔ یہ علامتیں منیٰ کی حد بندی کے لیے ہیں تاکہ ناواقف لوگ منیٰ کی حدود سے باہر قیام نہ کریں۔ برسبیل تذکرہ میدانِ عرفات کی حدود بھی مقرر ہیں اور امام صاحب جہاں کھڑے ہوتے ہیں وہ جگہ عرفات سے باہر ہے۔
اجل اور اَجل دونوں ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں لیکن ان کے تلفظ اور معانی میں فرق ہے۔ اَجَلّ میں ’ل‘ پر تشدید ہے جس کا مطلب ہے بہت بزرگ، بڑا ذی شان۔ عام طور پر علما کے ساتھ لکھا جاتا ہے ’فاضل اجلّ‘۔ اس کا مطلب ہے بہت بزرگ شخص۔ جب کہ اَجَل بھی عربی کا لفظ ہے لیکن اس کا مطلب ہے وقت، موت کا وقت، قضا۔ یہ مونث ہے۔ آتشؔ کا شعر ہے
موسمِ گل نہیں آتا ہے اجل آتی ہے
گور سے تنگ ہوا جاتا ہے زنداں مجھ کو
جس کو موت آیا چاہتی ہو اسے بھی اجل رسیدہ کہتے ہیں۔ جلال کا شعر سن لیں
پکارا کوچہ قاتل میں مجھ کو دیکھ کے دل
اجل رسیدہ ارے تُو کہاں نکل آیا
اجل کسی کے سر پر بھی کھیلتی ہے۔ کھیل کے میدان ختم ہوتے جارہے ہیں تو یہی ہوگا۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔