جب میں اقتصادیات، فلسفے یا تعلیم جیسے مضامین سے متعلق کوئی موضوع یا تصور کے بارے میں طلبا کو پڑھا رہا ہوتا ہوں تب مجھے طلبا کے منہ سے یہ سننے میں دلچسپی نہیں ہوتی کہ کینٹ (Kant) نے اس حوالے سے کیا کہا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ طلبا کینٹ کو پڑھیں اور اس لیے پڑھیں تاکہ انہیں موضوع کو بہتر اور جامع انداز میں سمجھنے میں مدد ملے۔ اور پھر جب میں یہ چاہتا ہوں کہ طلبا کسی موضوع پر جب مقالہ لکھیں تو مجھے یہ جاننے میں دلچسپی ہوتی ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر پہلے کیا کام کیا ہے اور دیگر مصنفین کو پڑھ کر اپنا کون سا نتیجہ اخذ کیا۔ مجھے زیادہ دلچسپی کینٹ میں نہیں بلکہ طلبا کے خیالات میں ہوتی ہے۔
یہاں میں ایک اہم بات سے متعلق خبردار کرنا چاہتا ہوں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ طلبا کسی بھی تصور یا موضوع کے بارے میں دیگر بہترین مصنفین کا مطالعہ کیے بغیر ہی اپنے طور پر کسی ایک تصور یا موضوع کے بارے میں اپنی رائے قائم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ کینٹ کو پڑھے بغیر آپ موضوع کو بہتر انداز میں سمجھ نہ پائیں اور/یا اس کی گہرائی میں اتر نہ پائیں۔ موضوع کے لیے مطلوبہ مطالعے بغیر قائم کی جانے والی رائے کی زیادہ اہمیت نہیں ہوگی۔ لیکن اگر رائے صرف کینٹ کے الفاظ کی نقل تک محدود ہو تو پھر ایسی رائے بھی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبا پہلے کینٹ کا مطالعہ کریں اور پھر جو کچھ پڑھا ہے اس کی روشنی میں دنیا کا فہم حاصل کیا جائے۔ عام طور پر طلبا میں اس رجحان کی کمی پائی جاتی ہے۔
تعلیم اور پڑھائی کا مطلب ہی یہ ہے کہ ان باتوں میں شریک ہوا جائے جو ایک عرصے سے کی جا رہی ہیں اور آگے بھی کی جاتی رہیں گی۔ بچے انہی باتوں کو جان کر اپنی قابلیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ تعلیم کا مقصد صرف مخصوص ہنر، طریقے یا مخصوص حقائق کا علم حاصل کرنا نہیں ہے۔
پاکستان میں تنقیدی سوچ اور علم حاصل کرنے کے عمل پر پہلے ہی کافی گفتگو کی جاچکی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ یہ مضمون دراصل وسیع بنیادوں پر ہونے والی اس گفتگو میں زیرِ غور چند باعثِ فکر پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔
یہ مضمون یکم نومبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔