اخبارات میں عام طور پر ’علیحدہ‘ لکھا جاتا ہے اور ہمارے خیال میں یہ فصیح ہوچکا ہے۔ ویسے عربی میں اس کا املا ’علاحدہ‘ ہے۔ علیحدہ میں ’ل‘ پر کھڑا زبر تھا جیسے عیسیٰ اور موسیٰ۔ یہ کھڑا زبر عربی میں مقصورہ کہلاتا ہے۔ ادنیٰ اور اعلیٰ پر سے تو یہ الف مقصورہ غائب کر ہی دیا گیا ہے۔ اسی طرح علیٰحدہ سے بھی غائب ہوگا۔ تلفظ اس کا ’علیٰ حدہ‘ ہے۔ علیٰ اوپر اور حدہ کا مطلب جدا، تنہا، الگ۔ علیٰحدہ کرنا کا مطلب ہوا: جدا کرنا، الگ کرنا، موقوف کرنا۔ اس کا مطلب چھانٹنا اور انتخاب کرنا بھی ہے۔ عربی میں کہتے ہیں ’علٰے وجہ الکمال‘۔ یعنی کامل طور پر۔ علی الاعلان، علیٰ ہذا القیاس وغیرہ۔ خانہ کعبہ کے قریب جو قبرستان ہے اسے بہت سے لوگ جنت المعلیٰ کہتے ہیں، معلیٰ بروزن مصلیٰ۔ جبکہ اس کا تلفظ ’معلا‘ ہے یعنی ’مع۔ لا‘۔
اسی طرح اعلانیہ بھی بغیر الف کے ہے یعنی ’علانیہ‘۔ تاہم عربی میں لفظ ’اعلان‘ ہے یعنی اظہار، ظاہر کرنا۔ ناسخؔ کا شعر ہے
یہ زمیں اچھی نہ تھی ناسخ ولیکن فکر نے
حسن پیدا کردیا ہے نون کے اعلان سے
یہ شاید ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ اردو کا ’لیکن‘ عربی کا ’لاکن‘ ہے۔ یہاں بھی ’ل‘ پر کھڑا زبر ہے۔ قرآن کریم میں بھی ’ولاکن‘ آیا ہے۔ لیکن اب اردو میں لیکن، اعلانیہ اور علیحدہ ہی درست سمجھا جائے گا۔
ٹی وی چینلز پر تلفظ میں زیر، زبر کی غلطیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ کبھی ایسی غلطیاں انگریزی میں کرکے دکھائیں۔ مثال کے طور پر ہدایت میں پہلا حرف بالکسر ہے لیکن ماہرین اس پر زبر لگادیتے ہیں۔ ایک بڑے ادیب و شاعر کے بیٹے بھی زبان کی اصلاح کرتے ہیں لیکن وہ انتڑیاں کو انتڑ۔ یاں کہہ رہے تھے۔ اس میں نون ساکن ہے۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔