لہٰذا عمران خان کو چاہیے کہ وہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کسی ایک خاص شعبے کی نشاندہی کریں اور اسے اپنی ترجیحات میں شامل کریں، ورنہ ان کے حصے میں صرف اور صرف یہ اعزاز ہوگا کہ ان کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔
اگرچہ پی ٹی آئی کی جانب سے مختلف شعبہ جات میں متعارف کروائے گئے متعدد منصوبے (جنگل کاری، احساس، یکساں نصاب، وغیرہ) پر کام تو اپنی جگہ جاری رکھا جاسکتا ہے لیکن اگر وزیرِاعظم ملک کی تقدیر بدل دینے والا کوئی کارنامہ انجام دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں تعلیم (بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم) کو فروغ دینے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھاتے ہوئے پاکستان کے دیہی علاقوں میں انقلاب لانا ہوگا۔
اگر پاکستان خواتین کو بااختیار بنانا چاہتا ہے تو اسے بنگلہ دیش کے نقشِ قدم پر چلنا ہوگا۔ جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ لازم ہے کہ وزیرِاعظم سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی یونین کے معاملے کو جلد از جلد نمٹائیں۔ ان اساتذہ کو مقامی سیاسی آقاؤں سے رہائی دلوانی پڑے گی اور ان سے کام لینا ہوگا۔
یہی وہ 5 لاکھ سرکاری اساتذہ ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک کا مستقبل ہے اور اگر عمران خان ان سے کام لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یوں وہ اس ملک کو ترقی کی ناقابلِ تسخیر بلندیوں تک پہنچانے کی راہ ہموار کرلیں گے اور سابقہ حکمرانوں کے مقابلے میں اپنے پیچھے بے مثال لیگیسی چھوڑ جائیں گے۔
یہ مضمون 22 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔