دوسرا آدمی: یقیناً۔ مگر میرے بھائی تم نے وہ ویڈیو دیکھی جس میں میاں صاحب میں اتنی ہمت نظر آرہی ہے کہ وہ ہسپتال کے بستر پر لیٹنے سے پہلے اللہ جانے کتنوں سے گلے ملتے ہوئے جا رہے ہیں؟
پہلا آدمی: تو اس میں کیا بُرا ہے؟ جب دوست ملتے ہیں تو ان کے ساتھ مثبت جذبات کے ساتھ ملنا ایک فطری عمل ہے۔ میاں صاحب یہ بات کبھی نہیں بھولتے اور اس کے قائل بھی ہیں۔ انہوں نے تو علاج معالجے کی غرض سے بیرون ملک جانے میں مدد فراہم کرنے پر چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
پہلا آدمی: بیرون ملک جانے یا فرار ہونے میں؟
دوسرا آدمی: اجی جو چاہیں سو کہیے، لیکن چوہدری برادران جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کیونکہ ہر سیٹ اپ میں ان کی شمولیت لازمی قرار پاتی ہیں، یوں سمجھ لیجیے کہ یہ برادران ہی وہ بنیادی چال اور ڈھال فراہم کرتے ہیں جن کی مدد سے آپ کو انواع و اقسام کی کھچڑیاں پکانی ہوتی ہیں۔
دوسرا آدمی: دیکھو دیکھو تم اصل مدعے سے بھٹک رہے ہو۔
پہلا آدمی: نہیں بالکل نہیں۔ آپ نے تو مجھے ایک ایسی مثال دے دی ہے جس کی مدد سے میں اپنی اس تھیوری کو آگے بڑھا رہا ہوں کہ ہم جو بھی کام کرتے ہیں اس میں شامل ہونے والے ناگزیر، بنیادی اور یکجا رکھنے کی قوت رکھنے والے مٹیریل کی ٹماٹر کس طرح ترجمانی کرتے ہیں۔ بلکہ میں تو تمہیں یہ دوسرے طریقے سے بتاسکتا تھا کہ کس طرح یہاں آپ گجرات کے چوہدریوں کے سوا کسی سیٹ اپ کی توقع نہیں کرسکتے اور کس طرح یہ حضرات صرف خاص موسموں میں بوقتِ ضرورت نمودار ہوتے ہیں اور پھر تقریباً منظرنامے سے ہی غائب ہوجاتے ہیں۔
(اشیائے خورد و نوش کی کمی اور سیاستدانوں کی پیداوار اور برآمدات کا اگلا موسم آنے تک گفتگو کے دوسرے حصے کا انتظار فرمائیے۔)
یہ مضمون 22 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔