روہنگیا باشندوں کو اپنے ہاں ٹھہرانے میں بنگلہ دیش کو مسئلہ ہے اور اس کے میانمار کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔
بھارت میں جن افراد سے ریاستی شناخت چھینی گئی ہے ان پر غیر قانونی بنگلہ دیشی شہری ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ اپنے نازک حالات سے دوچار تعلقات کو ہرگز خراب کرنا نہیں چاہے گا پھر چاہے اس کے لیے 20 لاکھ لوگوں کو اپنے ہاں ٹھہرانا ہی کیوں نہ پڑجائے۔
پاکستان کی بات کی جائے تو اس پر پہلے ہی پناہ گزینوں کا بھاری بوجھ لدا ہوا ہے جبکہ بھارت کے ساتھ تعلقات عدم استحکام کا شکار ہیں، پھر بنگلہ دیش کے ساتھ بھی تاریخی دوریاں موجود ہیں، اس کے علاوہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بھی کافی کمزور پائے جاتے ہیں۔
مگر زمینی سیاست انسانیت کے دکھوں اور تکلیفوں کو کبھی خاطر میں ہی نہیں لاتی۔ جنوبی ایشیا میں ریاستی شناخت سے محروم افراد کی حالتِ زار جنگ اور قحط کے متاثرین سے بھی بدترین ہے، ایسی بدترین حالت جسے دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے۔
کسی شخص کی شناخت، جو اسے پیدائشی حق کی صورت میں ملی ہو یا پھر کسی ملک میں آباد ہونے پر فراہم کی گئی ہو، اس سے انکار انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں سے ایک شمار کی جاسکتی ہے۔
ان مظالم کو نظر انداز کرنا تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیا کے اندر ریاستی شناخت سے محروم آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے لہٰذا سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کو فوری طور پر اس طرف دھیان دینا ہوگا، ساتھ ہی ساتھ باقی دنیا کو بھی اپنی توجہ اس جانب مرکوز کرنی ہوگی۔
یہ مضمون 26 نومبر کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔