حتٰی کہ نیم علم و آگہی رکھنے والے مشاہدہ کاروں کو بھی یہ سمجھنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ دونوں خصوصیات ایک بنیادی تضاد کو جنم دیتی ہیں۔ قانون کی حکمرانی کی عارضی غیر موجودگی میں آپ کس طرح ایک ملک میں ایک ہی وقت میں ٹیکنوکریٹک اور میرٹ کی بنیادوں پر تعینات افسران پر مشتمل بیوروکریسی کا نظام وجود میں لاسکتے ہیں؟
ملانووک کے مطابق اسی وجہ سے چینی نظام میں ایک اور خصوصیت کی راہ ہموار ہوجاتی ہے، اور وہ ہے زبردست کرپشن۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی نظام کو جب فیصلہ سازی کے صوابدیدی اختیارات درکار ہوتے ہیں تو وہ بے ضابطگی کی راہ ہموار کردیتی ہے۔ اگر قیادت کی نظر سے کرپشن کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تو اس سے بیوروکریسی کی سالمیت اور ان اقتصادی پالیسیوں پر عمل کرنے کی صلاحیت کمزور پڑسکتی ہے جو اقتصادی ترقی میں مدد دیتی ہیں۔
اسی لیے ایسا نظام ہمیشہ غیر یقینی توازن کا شکار رہتا ہے۔ ایک طرف اسے اپنے مخالفین کو سزا دینے اور شرح نمو کو بلند سطح پر لانے کے لیے چند مخصوص عناصر (بزنس مین، بیوروکریٹس) کو فائدہ پہنچانے کا پورا اختیار چاہیے ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف نظام کے اندر فیصلہ سازی کے صوابدیدی اختیارات حاصل ہونے پر سرکاری وسائل کو ذاتی دولت بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جس کا مظاہرہ ہم وقتاً فوقتاً دیکھ چکے ہیں۔ اس توازن کو برقرار رکھنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد مداخلت کی جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کرپشن اقتصادی ترقی کو مکمل طور پر غیر مستحکم نہ کردے۔
جہاں تک اس نظام کی ٹیکنوکریٹک اور باصلاحیت بیوروکریسی کی خاصیت کا تعلق ہے تو ہمیں اس کی ضرور نقل کرنی چاہیے۔ وہ ریاستیں جو لاکھوں افراد کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانا چاہتی ہیں انہیں بڑے بڑے ترقیاتی پروگرامز کا انتظام سنبھالنے کے لیے باعزم اور باصلاحیت انسانی وسائل درکار ہوتے ہیں۔
یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ اس نظام کی دوسری وہ خاصیت جس نے کراماتی انداز میں اقتصادی ترقی بخشی ہے وہ ویسا ہی رویہ ہے جس کی حکمراں جماعت کے کئی حامی برملا انداز میں مخالفت کرتے ہیں، یعنی صوابدیدی اختیارات کے ساتھ قوانین کا نفاذ اور کرپشن کو ’ایک خاص‘ حد سے زیادہ بڑھنے نہ دینا۔
لہٰذا اگلی بار چند افراد کو چائنا ماڈل کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئٹر پر مہم شروع کرنے سے پہلے اس تضاد کا حل نکالنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
یہ مضمون 2 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔