لیاری کی ہی مثال لیجیے۔ 10 لاکھ کی آبادی والے اس علاقے میں 120 سرکاری اور 300 نجی اسکول موجود ہیں۔ دوسری طرف یہاں 120 مدرسے بھی ہیں جہاں طلبا کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ لوگوں کا جھکاؤ کس طرف ہوگا؟ وہ بچے اور ان کے والدین شاباشی کے مستحق ہیں کہ جو مشکلات کے باوجود اسکولوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اپنے حوصلے بُلند اور تعلیم پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
قائدِاعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بلوچی زبان پڑھانے والے اور وسیع مطالعے کے حامل پروفیسر واحد بخش بزدار علم و دانش سے جڑے مسائل کی خوب آگاہی اور سمجھ رکھتے ہیں۔ واحد بخش بلوچستان کے معیارِ تعلیم سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ’تعلیم کو سیاسی اور کمرشل پیرائے میں ڈھالنے سے صورتحال کہاں ٹھیک ہونی ہے‘۔ اس کے علاوہ ’مذہبی اداروں کی اجارہ داری تنقیدی سوچ اور فکر کا گلا گھونٹتی جارہی ہے۔‘
یہ ساری باتیں بلوچستان میں پھیلی اس بے چینی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں جسے حکومت بزور بازو ختم کرنا چاہتی ہے۔ کیا اس معاملے میں وردی میں ملبوس سپاہیوں کے مقابلے میں وژن و لگن کے حامل تعلیمی اصلاح کار اور مؤثر غربت مٹاؤ پروگرام کی خدمات زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوں گی؟
یہ مضمون 6 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں