آبادی کے اس خاص طبقے میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی مخالف احتساب سے متعلق عمران خان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں، اور عمران خان سے پہلے مشرف کے حامی تھے۔ تاہم آبادی کے اسی طبقے میں نواز شریف یا زرداری کے ہمدردوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ آپ کو اس میں عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی یا دیگر لسانی و قوم پرست جماعتوں کے حامیوں کی بھی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ سول اور ملٹری شعبوں سے وابستہ حاضر اور ریٹائرڈ افراد کی ایک کثیر تعداد بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
جو لوگ ہاؤسنگ اسکیم میں پلاٹ کے مالک ہیں یا خریدنا چاہتے ہیں وہ اس ہجومی تشدد سے خوفزدہ ہوسکتے ہیں جس کا مظاہرہ وکلا نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں کیا تھا اور اس سلوک سے بھی ڈر سکتے ہیں جو ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ ان لوگوں میں پاکستان کی تنگ نظر خارجہ اور اسٹریٹجک پالیسیوں کے حامی بھی شامل ہوسکتے ہیں اور اس کے سخت مخالف بھی۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہمیشہ مذہب کے نام پر جنگ یا تشدد کے مخالف رہے ہیں، اور پھر کچھ ایسے بھی ہیں جو آج بھی ’بیرونی ہاتھ‘ کو بے ضرر بنانے کے لیے پراکسیز کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں۔ بات سمجھ تو آگئی ہوگی۔
ملک ریاض صرف اس لیے اربوں نہیں کماتے کہ انہیں ریاست کے اہم اداروں یا امرا کی لابیوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وہ اربوں اس لیے کماتے ہیں کہ وہ ایک ایسا مالی اثاثہ، ایک کموڈیٹی فراہم کرتے ہیں جسے معاشرے کے کئی لوگ خریدنا چاہتے ہیں، ایک ایسی خواہش فراہم کرتے ہیں جو نظریاتی اختلافات کی حدود کو بھی نہیں پہچانتی۔
خوشحال دروازہ بند رہائشی علاقوں کی تعمیر کے لیے ڈیولپرز گوٹھوں اور کچی آبادیوں، پہاڑ کی چوٹیوں اور دریائی ڈیلٹاؤں پر مقیم غریبوں کی زمینیں ہتھیا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دروزاہ بند ہاؤسنگ اسکیم اور اس کی وجہ سے وجود میں آنے والی طرزِ زندگی نہ صرف طبقاتی تفریق کی علامت ہے بلکہ یہ پہلے سے کمزور ماحولیاتی نظام کو مزید بگاڑ کی طرف لے جاتی ہے۔ اور ایسے کئی افراد جنہیں محاوراتی پلاٹ کی طلب ہے وہ ماحولیات کے حوالے سے مڈل کلاس ذہنیت رکھتے ہیں اور مفاد عامہ پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔