جس حکومت کی یہ اولین ذمہ داری تھی کہ وہ ہمارے بچوں کو تعلیم جیسا بنیادی حق فراہم کرے گی، اس کی جانب سے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور وسعت دینے میں ناکامی کے باعث لوگوں کا اس پر سے بھروسہ ہی اٹھ گیا۔
تعلیم کی طلب کو بڑی حد تک نجی شعبہ ہی پورا کر رہا ہے، جن میں غیر منافع بخش اور منافع بخش تعلیمی ادارے دونوں ہی شامل ہیں۔ لیکن نجی شعبہ دیہی علاقوں میں حسبِ توقع دلچسپی نہیں رکھتا۔ تاہم ہمارے ہاں سیٹیزن فاؤنڈیشن اور علی حسن منگی میموریل ٹرسٹ جیسی تنظمیں ضرور موجود ہیں، جو ہیں تو شہری، مگر دیہی علاقوں کی بہتری کے لیے مختلف طریقوں سے کوشش میں مصروف ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ انٹرپرینیور اور انسان دوست افراد مل کر دیہی علاقوں میں چھوٹی چھوٹی کاٹیج انڈسٹریز قائم کریں۔ ایسے چھوٹے اور سہل منصوبوں کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے جن میں توانائی سے زیادہ تربیت یافتہ افرادی قوت درکار ہو۔
دیگر علاقوں میں فوڈ پروسیسنگ کی صنعت، سیل فون اور کمپیوٹر کی مرمت کے لیے یونٹ اور ہلکی مشینوں کی تیاری کے منصوبوں سے سیکڑوں ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لیے اپنے علاقوں میں ہی روزگار کے مواقع پیدا کیے جاسکیں گے اور انہیں شہروں کا رخ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
یوں نئی معاشی سرگرمیاں ہمارے پسماندہ رہ جانے والے دیہی علاقوں میں نئی روح پھونک دیں گی، بس ہمیں تعلیم سے جڑے مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔
یہ مضمون 20 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔