’ذمہ واری‘ بُری طرح پیچھے پڑگئی ہے۔ اس وقت بھی (پیر 30 دسمبر) ایک رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف ’بڑی ذمہ واری‘ سے ایک ٹی وی چینل پر خطاب فرما رہے ہیں۔ ’ذمہ داری‘ کو ’ذمہ واری‘ کہنے سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا، لیکن نئی نسل کی زبان مزید خراب ہورہی ہے۔
ہمارے نونہال اسی طرح بولنے لگے ہیں جس طرح یہ برقی دانشور بولتے ہیں۔ سابق وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار نے ٹی وی چینل پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے اپنی اردو درست کرلی ہے اور اب میں ذمے واری نہیں، ذمے داری کہتا ہوں۔ ممکن ہے کہ 15، 20 سال بعد کچھ اور لوگ بھی اپنی تصحیح کرلیں۔ ممکن ہے عدالت کو معزَز (تیسرے حرف پر زبر) کہنے والے بھی اسے معزِز کہنے لگیں۔
’سوا‘ اور ’علاوہ‘ کے بارے میں ہم بھی کئی بار لکھ چکے ہیں لیکن ماہرِ لسانیات پروفیسر غازی علم الدین نے استادانہ انداز میں اس کی وضاحت اور صراحت کی ہے۔ ان کے مضمون کا عنوان ہے ’علاوہ کی ذو معنویت اور ابہام و اہمال‘۔ پورا مضمون اس قابل ہے کہ اسے شائع کردیا جائے لیکن ہم تو عنوان میں ہی گم ہوگئے۔ ذو معنویت اور ابہام تو سمجھ میں آگیا، لیکن یہ اِہمال کیا ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔ ویسے تو اس قافیے میں ایک لفظ ’ایہام‘ بھی ہے۔
کسی صاحب کے سامنے اپنی قابلیت جھاڑی تو بولے: یہ ایہام نہیں ابہام ہوتا ہے۔ اِبہام کا مطلب ہے کھول کر بیان نہ کرنا، مبہم بات کرنا۔ عربی کا لفظ ہے اور اس کا ایک مطلب انگوٹھا بھی ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں کو ابہام دکھا دیا۔ شاعری میں ابہام ایک صنعت کا نام ہے۔ ایک شعر ہے
کھلے گا نہ مضمون وصف دہن کا
جو نکلے گی بات اس میں ابہام ہو گا
(ایک بار پھر دہن سامنے آگیا)۔ ایہام بھی عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے وہم میں ڈالنا۔ اصطلاحِ شاعری میں اس صفت کو کہتے ہیں کہ شاعر شعر میں ایک ایسا لفظ لائے جس کے دو معانی ہوں، ایک معنی مراد ہوں اور دوسرے معنی مراد نہ ہوں لیکن مقدم اور موخر الفاظ سے اس کو مناسبت ہو۔
مثلاً یہ مصرع ’ایسا گنہ کیا ہے کہ کچھ جس کی حد نہیں‘۔ اس میں حد کا لفظ ذو معنی ہے۔ یعنی انتہا اور گناہ کی سزا (حد جاری کرنا)۔ لیکن یہ اِہمال کیا ہے؟ لغت میں ایک لفظ ہُمال (بضم اول) ہے جو فارسی کا ہے۔ اسے بفتح اول بھی کہا جاتا ہے۔ مطلب ہے مثل، مانند، شبیہ و نظیر۔ ممکن ہے اسی سے اہمال ہو۔
فارسی میں ایک لفظ ہَم (بالفتح) ہے۔ اس کا مطلب ہے نیز، بھی، بلکہ، ماسوا، اس کے علاوہ، کسی کام میں شرکت ظاہر کرنے کے لیے، آپس میں، باہم دگر، ہم آغوش، ہم کنار، ہم دوش، ہم آواز، ہم کنار، ہم آہنگ وغیرہ۔ اردو میں ہم ’میں‘ کے بجائے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ’ہم آگئے تو جوشش گفتار دیکھنا‘ یا
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
یوپی، دہلی سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ اپنے بارے میں، مَیں کا صیغہ استعمال کرنے کے بجائے ’ہم‘ کہتے ہیں۔ تو ایسا لگتا ہے کہ اہمال کا مطلب مثل، مانند و نظیر کے ہے۔