بنگلہ دیش سے بلوچستان
بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے ٹریبیونل نے جماعت اسلامی کے لیڈروں کوجو حالیہ سزائیں سنائی ہیں اس نے سیکولر اور قدامت پسند حلقوں کے درمیان تناؤ کو اور بڑھا دیا ہے-
بڑےپیمانے پرغلطیوں سے پر سمجھی جانے والی یہ کارروائیاں اس بات کو ظاہرکرتی ہیں کہ بنگلہ دیش کی سوسائٹی میں کتنا تضاد ہے-
اگرچہ کہ ٹریبیونل نے اکانوے سالہ غلام اعظم کو عمرقید کی سزا دی ہے تاہم علی احمد احسن جماعت اسلامی کے سکریٹری جنرل کو پھانسی کی سزا دی گئی-
ہزاروں لوگوں نے ان نرم سزاؤں کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے-
یہ دونوں اس پارٹی کے کارکن ہیں جس نے 1971 میں بنگلہ دیش کی سول وار کے دوران پاکستانی فوج کی حمایت کی تھی اور جن پر بڑے پیمانے پرقتل اور عصمت دری کے الزامات لگائے گئے تھے-
اتنے سالوں کے بعد بھی ان واقعات کی یاد، بنگلہ دیش کے لوگوں کے جذبات کو بھڑکا دیتی ہے-
البتہ پاکستان میں 1971 کو اس وجہ سے یاد کرتے ہیں کیونکہ تب ہم نے اپنا مشرقی حصّہ کھو دیا تھا-
ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کیلئے یہ محض زمین کا ایک قطعہ تھا نہ کہ وہاں کے عوام- ہمارے جو جنگی مجرم ہیں ان کا محاسبہ ہو نا ابھی باقی ہے؟
لہٰذا ہمارا نقطہء نظر چار دہائیوں کے گزرنے کے باوجود ابھی تک نہیں بدلا ہے-
آج تک ہماری درسی کتابوں بلکہ فوجی اکیڈمیوں میں دیے جانے والے لیکچروں میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی وجہ، ہندوستان کی سازشیں اورہندو آبادی کی دغابازیاں تھیں-
اس کے علاوہ ایک اور وجہ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ مبینہ رول تھا جو پاکستان کو توڑنے کے لئے کھیلا گیا-
اور اسکا محرک ہرحال میں ملک پرحکومت کرنے کا ان کا عزم تھا اورشیخ مجیب کے چھ نکات پر دستخط کرنے سے انکار نے ملک کی علیحدگی کی راہ ہموار کر دی-
یقینا یہ نقطہء نظر فوج کے حق میں جاتا ہے اور اس کو تمام ذمہ داریوں سے مبرا کر دیتا ہے- یہاں تک کہ ڈھاکہ میں 16 دسمبر1971 کو ہتھیار ڈالنے کی ذلت آمیز کارروائی کی ذمہ داری سے بھی-
آج جب ہم پیچھے مڑکر دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ ایک بار اگر بنگلہ دیش کے لوگوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ ان کا راستہ الگ ہے تو انکو روکنا مشکل تھا- اسی وقت ہندوستان نے مداخلت کی-
مگر ہماری فوج قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کے بجائے ان گنت زندگیاں بچا سکتی تھی اور معاہدہ کر کے ایک باعزت راستے کا انتخاب کرسکتی تھی کیونکہ لاجسٹیک کے اصولوں کے مطابق ہماری فوج ہار سے نہیں بچ سکتی تھی- جو کہ واقعی ہوا البتہ ہتھیار ڈالنے کی ذلت سے بچا جا سکتا تھا-
یہ صورت حال بہرحال بلوچستان میں نہیں ہے جہاں نسبتاً چھوٹے پیمانے پربغاوت کی لہر ایک عرصے سے چل رہی ہے- جغرافیائی محل وقوع کے اہم فائدے سے قطع نظر، دنیا کا کوئی ملک بلوچستان کی آزادی کیلئے لڑنے کا خواہش مند نہیں ہے-
علاقائی طاقتیں ممکن ہے کچھ قوم پرست گروہوں کی مدد کر رہی ہوں مگر 1971 کے برخلاف کسی پڑوسی ملک کی طرف سے چڑھائی کا کوئی خطرہ نہیں ہے-
دوسری حقیقت جو بلوچ جنگ بازوں کے پیش نظر رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ فوج اور پاکستانی ریاست اس موجودہ سطح کی کشمکش کو ایک لمبے عرصے تک برداشت کر سکتی ہیں- بالکل اسی طرح جیسے ہندوستانی فوج کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کے خلاف ایک عرصے سے نبرد آزما ہے-
پاکستانی فوج بھی قوم پرستوں کی طرف سے پہنچائے جانے والے نسبتا چھوٹے موٹے نقصانات کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے- دراصل دونوں طرف ہمیشہ معصوم لوگ ہی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں-
اس قسم کی باغیانہ تحریکوں میں عموما یہی ہوتا ہے- جہاں ایک منظم فوج نظر نہ آنے والے دشمن کے خلاف تنگ آ کر علاقائی آبادی کے لوگوں کو باغیوں کی مدد کے شبہ میں اپنا نشانہ بناتی ہے- یہی وجہ ہے کہ اس زیر زمین لڑائی نے سینکڑوں نوجوان تشدد پسندوں کی گمشدگی اور غیر بلوچ شہریوں کا قتل دیکھا ہے-
آج ہمارے پاس ایک ایسا ملک ہے جو پہلے سے طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ ہے اور عوام میں بلوچوں سے ہمدردی کے جذبات کم ہیں بلکہ کسی زیادہ باشعور معاشرے میں بھی بلوچوں کی شکایات اتنی قابل توجہ نہں ہیں-
چنانچہ بلوچستان کی صورت حال 1971 کے مشرقی پاکستان سے بہت مختلف ہے- اس بات کا مقصد بلوچوں کی شکایات سے صرف نظر کرنا نہیں ہے-
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس بدنصیب صوبہ کے عوام قیام پاکستان کے ابتدائی ایام سے ہی تمام حکومتوں کےغیض وغضب کا نشانہ رہے ہیں- لیکن جیسا کہ دنیا بھر کی قوم پرست تحریکوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے، جدید ریاستیں اپنی زمین کے ایک ایک انچ حصّے سے چپکی رہنا چاہتی ہیں-
پاکستان کی فوج اورریاست کے پاس، اورفوج کے خیال میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں- مواقع بہت محدود ہیں- صوبے کی کھلی سرحد، ملحقہ علاقہ اور اطراف کی زمین ایسی ہے کہ حتمی فوجی کامیابی کا حصول مشکل ہی ہو گا-
اور افغانستان کی سرحد پر مشکل حالات کی وجہ سے فوجی افسران نہ ختم ہونیوالی اندرونی چپقلش میں کبھی نہیں الجھنا چاہینگے- خصوصا بیرونی فوجوں کی علاقے سے روانگی کی صورت میں جو آئندہ سال متوقع ہے-
معاشی لحاظ سے اس چپقلش کو ختم کرنا ایک بہت پرکشش تجویز ہے-
بلوچستان کے قدرتی ذخائرکے ساتھ ساتھ گوادر سے چین کا راستہ کھولنے کی ضرورت- لیکن یہی سب کچھ تو ہے جو قوم پرست قوتیں نہیں چاہتیں- وہ نہیں چاہتی ہیں کہ ان کے قدرتی ذخائر سے کوئی فائدہ اٹھائے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے-
مشکلات کو سلجھانے کے کلیہ کا ایک اصول یہ ہے کہ اگر امن کا حصول مطلوب ہو تو دونوں فریقوں کو امن سے دور کر دو تا کہ دونوں مذاکرات کی میز پر آنے کیلئے مجبور ہو جائیں-
یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ وہ لمحہ ابھی تک آیا یا نہیں؟
فوج یہ سمجھتی ہے کہ وقت ان کے ساتھ ہے: ان کے اوپر کوئی بین الاقوامی دباؤ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے باہر کے میڈیا کیلئے سارے راستے مکمل طور پر بند کر رکھے ہیں اور جو مقامی ٹی وی چینلز ہیں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے- ان کیلئے، این آراو اور سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے چند مردہ قوم پرستوں کے مقابلے میں، اپنے ناظرین کی تعداد بڑھانے کیلئے کافی ہیں-
بلوچوں کا دوسرا مسئلہ ان میں کسی قابل قدر لیڈرشپ کا فقدان ہے-
کئی قبائلی سردار حکومت کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے بے اثر ہو چکے ہیں- اس کے علاوہ اب آبادی کا ایک بڑا حصّہ غیر بلوچوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ افغانستان سے مسلسل پختونوں کی ہجرت ہے-
یہ بات بالکل صاف ہے کہ ان باتوں کا جواب آسان نہیں ہے لیکن ان مشکلات کو دور کرنے میں جتنی دیر لگے گی انکا حل اتنا ہی مشکل ہو گا-
نواز شریف کو چاہئے کہ وہ ان معاملات کو سلجھانے کیلئے کچھ سیاسی اقدام کریں کیونکہ یہ ذرا زیادہ ہی سنجیدہ معاملہ ہے جسے جنرلوں پرہمیشہ کی طرح نہیں چھوڑا جا سکتا-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
