دیگر مذاہب سے جڑے حکمران شاہی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بادشاہ تھے۔ یہ بات تو صاف ہے کہ صدیوں پہلے وجود رکھنے والی ریاستِ مدینہ اور موجودہ جمہوریت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ مگر آج کی جمہوریت تو 150 سال پرانی اس جدید مغربی جمہوریت سے بھی کافی زیادہ مختلف ہے جس میں کولونیل ازم تھا، خواتین رائے دہی کے حق سے محروم تھیں اور غلامی کا چلن عام تھا وغیرہ۔
آج مسلمان ریاستوں میں اس بڑے جمہوری فقدان کی وجوہات عصری عناصر سے واضح ہوجاتی ہیں۔ علاقائی تجزیے سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ یہ عناصر نہ صرف متعدد مسلمان بلکہ دیگر غیر مسلم علاقائی ریاستوں میں بھی جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں۔
مشرقی ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں جہاں انڈونیشیا اور ملائشیا میں انتخابی جمہوری نظام پایا جاتا ہے وہیں برونائی واحد ایسی مسلم ریاست ہے جہاں شخصی حکومت قائم ہے۔
مشرقی ایشیا میں واقع چین، شمالی کوریا، لاؤس، میانمار، کمبوڈیا اور ویتنام جیسی متعدد غیر مسلم ریاستوں میں آمرانہ نظام رائج ہے۔ اگر ایک طرف سابقہ سوویت مسلم اکثریتی ریاستوں (کازغستان، ازبکستان و دیگر) میں غیر جمہوری نظام موجود ہے تو دوسری طرف روس، بیلاروس اور یوکرین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔
جنوبی ایشیا کی 4 مضبوط جمہوریتوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان شامل ہیں دوسری طرف اس خطے میں جمہوری دوڑ میں پیچھے رہ جانے والی 4 ریاستوں میں سے 2 غیر مسلم ریاستیں ہیں۔ افریقہ میں بھی اسی طرح کی ملی جلی تصویر ابھر سامنے آتی ہے۔
مشرق وسطیٰ تقریباً مکمل طور پر مسلم ریاستوں کا خطہ ہے اور وہاں غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ خطے کی داخلی سطح پر موازنہ ممکن نہیں ہے۔ یوں انتہائی ترقی یافتہ مغربی اور مشرقی ایشیائی ریاستوں کے باہر مختلف مذاہب کی اکثریتی ریاستوں میں جمہوریت پسندی کافی یکساں دکھائی دیتی ہے۔
آج اگر مسلمان ریاستوں کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ایران کے علاوہ آپ شاید ہی کوئی ایسی ریاست ڈھونڈ پائیں جہاں مذہبی ہدایات یا تعلیمات کسی بھی طرح سے سیاسی نظاموں کے مزاج پر مقتدرین کے نظریات اور فیصلوں پر اثرا انداز ہوتی ہوں۔
جہاں تک سعودی عرب اور برونائی کا تعلق ہے تو یہ ریاستیں بدعنوان شخصی نظام کو جائز ٹھہرانے کے لیے اس کا محض دکھاوا کرتی ہیں۔ دنیا کی مختلف مسلم اور غیر مسلم ریاستوں میں متعدد سیکولر عناصر بھی جمہوریت کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی حمایت سیکولر آمروں کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے، یہی حال ماضی میں مشرقی ایشیا کا بھی تھا۔
دیگر مسلم ریاستوں میں سیاست میں دلچسپی رکھنے والے تقریباً تمام سیکولر فوجی جنرلوں کے مقاصد نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا، ماضی میں یہی صورتحال ہم نے لاطینی امریکا میں دیکھی تھی۔