افسوس کے ساتھ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ جیسا کہ دہائیوں قبل سپریم کورٹ میں دائر کیے گئے اصغر خان کیس میں یہ کہا گیا تھا کہ مبیّنہ طور پر آئی ایس آئی ہی نے آرمی چیف کی ہدایت پر پیپلزپارٹی کو انتخابی فتح میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے امیدواروں میں نقدی رقم تقسیم کی تھی۔ لیکن معاملے یہ ہے کہ آج تک اس تاریخی کیس کا فیصلہ نہیں سنایا گیا ہے۔
ان تمام باتوں سے میں یہی سبق اخذ کرسکتا ہوں کہ اسٹیبشلمنٹ کے چند عناصر کو انتخابات کے نتائج میں جتنی کم دلچسپی ہوگی اتنا ہی زیادہ انتخابات آزادانہ اور شفاف ثابت ہوں گے، جتنی زیادہ ان کی دلچسپی ہوگی اتنے زیادہ انتخابات مشکوک ہوں گے۔
پھر ایک بار جب خراب طریقوں کے ذریعے وزیرِاعظم چن لیا جاتا ہے تو اسے اپنے سرپرستوں کے تابع رہنا پڑتا ہے۔ اور اگر وہ اپنے اختیارات آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا حال ویسا ہی ہوتا ہے جو نواز شریف کا ان کے کیریئر میں 2 مرتبہ ہوا ہے۔
اخلاقی جرأت رکھنے والے زیادہ تر افراد احکامات لینا نہیں چاہیں گے، خاص طور پر اس وقت تو بالکل بھی نہیں جب وہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے ہوں۔ لیکن اگر اس اکثریت کو باقاعدہ تیار کیا گیا ہو تو پھر ظاہر ہے حکمرانی کے حق پر سوال تو کھڑے ہوں گے۔
اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا مظاہرہ حال ہی پارلیمنٹ میں آرمی ایکٹ کی ریکارڈ اسپیڈ میں منظوری کے موقعے پر دیکھنے کو ملا۔ ملک کی 2 بڑی جماعتوں نے بڑے بول بولے، ساتھ ہی ساتھ مجوزہ قانون میں تبدیلیوں کی دھمکیاں بھی دیں لیکن آخر میں انہوں نے وہی کیا جس کا انہیں کہا گیا۔
ماضی میں جب جب ہمارے سیاستدانوں کو منتخب سویلین قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طاقت کے توازن کو ٹھیک کرنے کا موقع ملا ہے، تب تب انہوں نے خود کو جھکایا ہے۔ 2011ء میں جب امریکی کمانڈو ٹیم نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں واقع ان کے خفیہ ٹھکانے میں قتل کیا تو انٹیلیجنس کی ناکامی پر وضاحت سننے کے لیے پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس بلایا گیا۔
اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا نے اس ناکامی کی مکمل ذمہ داری قبول کی اور استعفے کی پیش کش کی۔ لیکن اسمبلی میں موجود زیادہ تر قانون سازوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اس کی ناکامیوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کا سنہری موقع گنواتے ہوئے ان کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کردیا۔
گزشتہ کئی برسوں سے دنیا میں ہماری ساکھ مسلسل گر رہی ہے۔ وہ پاکستان جو کبھی اپنے سے زیادہ طاقت والوں کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا تھا وہ اب ایسے ملک میں تبدیل ہوچکا ہے جسے اپنی ڈوبتی معیشت بچانے کے لیے سعودی عرب، چین، امریکا اور آئی ایم ایف کی بخشیشوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یقیناً ایک دن ایسا بھی آئے گا جب وہ پیسے دینے سے انکار کردیں گے۔