دیہی افغانستان کی آمدن کے ایک بڑے حصے کا دارومدار پوست کی کاشت کاری، اس کی ہیروئن میں منتقلی اور اس کی اسمگلنگ پر ہے۔ مگر اس کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے لوگ افیون کے عادی بن چکے ہیں، افغانستان اور پاکستان کے درمیان سب سے زیادہ اسمگل ہونے والی چیزوں میں سے ایک بھی ہے، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت ممکنہ طور پر 80 لاکھ منشیات کے عادی افراد پائے جاتے ہیں، اور کئی سارے اسمگلرز افسران اور مقامی بااثر افراد کو رشوتیں دے کر اسمگلنگ کرتے ہیں، اس وجہ سے گورننس میں بہتری لانے کی کوششوں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
ایک آخری قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ، ہمارے لوگوں کو فکر ہے کہ بولی ووڈ وغیرہ جیسی نرم طاقت اور مختلف منصوبوں کے لیے 2 ارب کی ادائگی کے ذریعے بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا اثر ہمارے لیے خطرناک ہے۔ مگر میں اس خیال سے ذرا بھی اتفاق نہیں رکھتا کیونکہ بھارت ہم سے متصل اپنی سرحدی زمین اور ہماری انتہائی سرایت پذیر ساحل (جسے اسمگلرز کی جنت بھی کہا جاتا ہے) سے ہمیں زیادہ آسانی سے نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور افغانستان میں اس کے اثر سے ہمیں نقصان پہنچانے کی صلاحیت بہت زیادہ نہیں بڑھ جائے گی۔
کوئی بھی حلقہ اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ دوحہ سے آنے والی طالبان ٹیم پاکستان میں طالبان قیادت سے ہدایات لینی آئی تھی۔
ہم طالبان پر اپنے محدود اثر و رسوخ کی بات کرتے ہیں مگر اس کے باوجود چاہے اچھا لگے یا بُرا،ہمیں یہ باور کرایا جائے گا کہ چونکہ قیادت یہاں پر موجود ہے اس لیے ہمارے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ صرف امریکا اور اس کے مغربی اتحادی ہی نہیں بلکہ دنیا یعنی چین اور روس بھی ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم سرکش طالبان کو ایک ایسے مؤقف اپنانے پر راغب کریں کہ جس سے افغانستان کو حاصل ہونے والی مالی و دیگر مدد کے جاری سلسلے کو خطرے میں ڈالے بغیر قیام امن ممکن ہوسکے۔
اس سلسلے میں ہمیں کون سی پالیسی اپنانی چاہیے؟ پڑھیے میرے اگلے مضمون میں۔
یہ مضمون 25 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔