علمِ نجوم کے مطابق زہرہ کا مشتری کے ساتھ ایک بُرج میں ہونا نہایت متبرک سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں تو زہرہ اور مشتری 2 بہنیں ایک گھر میں رہتی تھیں۔ 2 اچھے ستاروں کا ایک برج میں جمع ہونا ‘قِران السعدین’ کہلاتا ہے، اور قُرآن کا مطلب تو معلوم ہی ہے جس کا لغوی معنیٰ ہے پڑھنا۔ کتنے ہی مسلمان اسے پڑھنے اور سمجھنے کے بجائے چوم کر طاق میں رکھ دیتے ہیں، یا قسم اٹھانے کے کام آتا ہے۔ ماہرِ القادری کی بڑی مشہور اور مؤثر نظم ہے ‘قرآن کی فریاد’۔
مشتری پر یاد آیا کہ کچھ دن پہلے جسارت میں ایک کالم نگار نے ‘مشتری ہوشیار باش’ کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے مطلب سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ یہ جملہ ایک عرصے سے اشتہارات کی زینت بن رہا ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ یہ مشتری کون ہے جسے ہوشیار کیا جارہا ہے۔ دراصل ’مشتری‘ عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے خریدار، مول لینے والا۔ ایک شعر ہے
مشتری حسن کے بکتے ہیں تمہارے ہاتھوں
آج نیلام ہے یوسفؑ کے خریداروں کا
مشتری ایک ستارے کا نام بھی ہے جو چھٹے آسمان پر ہے۔ اس کے مذکر، مونث ہونے پر اختلاف ہے۔ امیر مینائی نے لکھا ہے کہ مشتری ستارہ مونث ہے، اور جہاں کہیں شعراء نے مذکر کہا ہے وہاں ستارہ مقصود نہیں ہے۔ لیکن منیرؔ نے تو ستارہ مشتری ہی کو مذکر باندھا ہے
ہوا ہے مشتری محبوس گویا برج عقرب میں
نظر آتے ہیں اہلِ علم و فضل اس سال زندانی
عربی میں خرید و فروخت کے لیے 2 الفاظ آتے ہیں ‘بیع و شِراء‘۔ شراء میں پہلے حرف کے نیچے زیر ہے یعنی شِراء۔ ہم اسے اب تک بالضم پڑھتے رہے۔ شراء کا مطلب ہے خریدنا۔ اس کا متضاد ’بیع‘ ہے اور یہ اردو میں زیادہ معروف و مستعمل ہے۔ بیع و شراء عام طور پر ساتھ آتے ہیں یعنی خریدنا، بیچنا۔
بیع نامہ تو اردو میں عام ہے اور بیعانہ بھی اسی بیع سے ہے۔ اسی بیع سے بیعت بھی ہے، یعنی خود کو کسی کے ہاتھ پر بیچ دینا۔ جب کوئی کسی بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ کو مرشد کے حوالے کردیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے فرماں برداری کا عہد و پیمان کرنا، اور متابعت کا مطلب ہے مرید ہونا۔
’بیعت‘ مونث ہے۔ بیعت کرنا، بیعت لینا، بیعت مانگنا وغیرہ، یعنی اطاعت و فرماں برداری کا طالب ہونا۔