ٹی وی چینل پر ’پیشِ امام‘ (پیشے امام) سننے میں آیا، یعنی ’ش‘ کے نیچے زیر۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا ’امام کے آگے‘۔ جب کہ امام کا مطلب ہی ’آگے رہنے والا، قیادت کرنے والا، پیشوا، ہادی، نماز پڑھانے والا‘ ہے۔ امام کی جمع ’ائمہ‘ ہے جس میں ہم لوگ الف پر مد لگا کر آئمہ کردیتے ہیں۔
امام کا الف بالکسر ہے اور اگر اس پر زبر ہو تو عربی میں اس کا مطلب ہوگا سامنے یا آگے۔ جگر مراد آبادی کا مصرع ہے ’یہ حرم نہیں ہے شیخ جی، یہاں سب کا ساقی امام ہے‘۔ تسبیح میں ایک لمبا سا دانہ ہوتا ہے جس کا شمار تسبیح کے دانوں میں نہیں ہوتا۔ وہ بھی امام کہلاتا ہے، جانے کیوں۔ یہ مصرع غالباً امام بخش ناسخ کا ہے ’شماردانۂ تسبیح میں امام نہیں‘۔
’نذر‘ اور ’نظر‘ میں ہمارے صحافی بھی گڑبڑا جاتے ہیں۔ ایک خبر میں ’سیاست کی نظر‘‘ پڑا۔ گوکہ سب کچھ سیاست کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن یہاں ’نذر‘ ہونا چاہیے۔
کہتے ہیں کہ کورونا بھی سیاست کی نذر ہورہا ہے۔ عجیب تماشا یہ ہے کہ کورونا کا املا ایک ہی اخبار میں بلکہ ایک صفحہ پر کہیں ’کورونا‘ ہے اور کہیں ’کرونا‘۔ اس سے لڑنے کے لیے املا درست ہونا ضروری نہیں لیکن اخبارات کو ایک املا پر متفق ہوجانا چاہیے۔ یہ صورتحال ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں بھی نظر آتی ہے، یہاں تک کہ سرورق پر بھی یہ دونوں املا جگمگا رہے ہیں یعنی کرونا اور کورونا۔
’سبوتاژ‘۔ یہ لفظ کبھی اردو میں نووارد تھا مگر اب تو اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ آج کل بہت سبوتاژ ہورہا ہے۔ ایک دلچسپ کتاب ’پردہ اٹھادوں اگر چہرہ الفاظ سے‘ کے مصنف ڈاکٹر ف۔ عبدالرحیم اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ فرانسیسی لفظ ہے اور اس کا املا SABOTAGE ہے، اور تلفظ وہی ہے جو اردو میں ہے۔ اس کا اصل SABOT ہے جس کا معنی ہے کھڑاؤں۔ اور تلفظ ہے ’سابو‘۔ اس کے آخر میں لفظ T پڑھا نہیں جاتا۔
کھڑاؤں تو اب نظر ہی نہیں آتی۔ بچپن میں جب کئی چپل توڑے تو ہمیں کھڑاؤں پہنادی گئی، تکلیف دہ جوتا ہے جسے جوتا کہنا ہی نہیں چاہیے۔ لکڑی کی ہوتی ہے اور چلتے ہوئے خوب کھٹ کھٹ کرتی بلکہ کھڑکھڑ کرتی تھی۔ شاید اسی لیے کھڑاؤں کہلائی۔ بدھ بھکشوئوں کے پیروں میں اب بھی نظر آجاتی ہے، بشرطیکہ بھکشو نظر آئیں۔
کھڑاؤں میں تخریب کاری (سبوتاژ) کا مفہوم کیسے پیدا ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار فرانس کے ہڑتالی مزدوروں نے اپنے مالک کے کارخانے کی مشینوں میں کھڑاویں پھینک کر انہیں بے کار کردیا تھا۔ شاید اسی لیے کھڑاوؤں کا رواج ختم ہوگیا، یعنی نہ ہوگی کھڑاؤں نہ ٹوٹیں گی مشینیں۔
ایک اور قابلِ ذکر بات یہ کہ انگریزی کے بعض زبان شناسوں کا خیال ہے کہ فرانسیسی لفظ ABOT عربی لفظ ’سباط‘ سے ماخوذ ہے۔ گوکہ لفظ سباط قدیم عربی میں نہیں پایا جاتا مگر آج کل بعض عرب ملکوں میں رائج ہے اور معتبر عربی لغت ’محیط المحیط‘ میں بھی مرکوز ہے۔ ہسپانوی کا ZAPATO جس کے معنی جوتے کے ہیں شاید اسی لفظ سے ماخوذ ہے۔