Dawn News Television

اپ ڈیٹ 07 مئ 2020 11:54am

افسوس کہ دودھ کی نہر اب بھی بہہ رہی ہے

کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں اربوں لوگوں کو گھروں تک محدود کردیا ہے وہیں لاک ڈاؤن کے عالمی ماحولیاتی منظرنامے پر مثبت اثرات کی خبریں بھی آرہی ہیں۔

ماحول کو آلودہ کرنے میں ہم انسانوں کے کردار کا اندازہ اس بات سے ہی لگا لیجیے کہ جب سے لوگ گھروں تک محدود ہوئے ہیں تب سے دنیا کے مختلف ممالک سے پرانی اور ایسی نئی تصاویر وائرل ہورہی ہیں جن میں فضائی آلودگی میں آنے والا فرق واضح نظر آرہا ہے۔ بلاشبہ چند ہفتوں کے لاک ڈاؤن سے ماحولیات کے حوالے سے دنیا کافی بدل گئی ہے۔

یہاں بطورِ حوالہ چند مقامات کا تذکرہ ضروری ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تھائی لینڈ کے نایاب ساحلی کچھوؤں کی افزائشِ نسل میں بہتری آئی ہے اور 2 دہائیوں بعد ان کی ایک بڑی تعداد منظرِ عام پر آئی ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے تھائی لینڈ کے نایاب ساحلی کچھوؤں کی افزائشِ نسل میں بہتری آئی ہے

نظروں سے اوجھل ہونے والا ہمالیہ کا پہاڑ 3 دہائیوں بعد اب بھارتی شمالی ریاست پنجاب سے نظر آرہا ہے، آسٹریلیا میں کینگروز مزے سے سڑکوں پر گھومتے نظر آئے۔

چین کی فضائی آلودگی میں کمی کی تصاویر بھی مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوگئیں۔ مختلف مقامات کی پرانی اور نئی تصاویر میں فرق واضح دکھائی دے رہا ہے، اٹلی کے شہر وینس کی نہریں اب اس قدر شفاف ہوچکی ہیں کہ ان میں تیرتی ہوئی مچھلیاں بھی نظر آرہی ہیں۔

بونیر کی ماربل فیکٹریاں اور ماحولیاتی آلودگی

اوپر بیان کی گئی خبریں اور دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کی رپورٹس دیکھیں تو سب سے پہلے مجھے ماربل فیکٹریوں اور اس کی وجہ سے بننے والی دودھ کی نہر کا خیال آیا جس سے متعلق ڈان بلاگز میں ہی کچھ عرصے پہلے لکھا تھا۔

خیال آیا کہ جب سب کچھ اتنا بدل گیا ہے تو کیا ان ماربل فیکٹریوں کے کیچڑ کی وجہ سے تربیلا ڈیم کو بڑھتے خطرات بھی کم ہوگئے ہوں گے؟

اصل میں ان خیالات کا آنا فطری ہے کیونکہ جب اٹلی کے شہر وینس کی نہروں میں تیرتی مچھلیوں کی تصویر دیکھی تو میری آنکھوں کے سامنے بھی وہ بچپن کا نظارہ گردش کرنے لگے جب ہم دیگر لوگوں کے ہمراہ دریائے برندوں کی مچھلیوں کا نظارہ کیا کرتے تھے۔

لوگ ٹانگو پُل اور ڈگر پُل کے مقامات پر کھڑے ہوکر مچھلیوں کو خوراک ڈالتے تھے اور مچھلیاں بلکھاتی ہوئیں خوراک کے لیے پانی کی سطح پر آیا کرتی تھیں۔ مقامی و غیر مقامی افراد خصوصاً نوجوان ٹولیوں کی شکل میں مختلف مقامات پر مچھلیوں کا شکار کرتے اور دریائے برندوں کے کنارے سبزے پر بیٹھ کر پکنک کیا کرتے تھے۔

لیکن بونیر بدقسمت رہا

تو بس انہی سوالات کے جواب جاننے کے لیے اپنے دوست اور مقامی صحافی نصیب یار سے رابطہ کیا۔ ہمارے یہ دوست ہمیشہ بونیر کے حوالے سے تصاویر بنانے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ ہم نے ان سے جب اس حوالے سے پوچھا کہ کیا اب بھی وہاں وہی صورتحال ہے یا لاک ڈاؤن کے مثبت اثرات اس نہر تک بھی پہنچے ہیں؟

مگر ان کا جواب جان کر افسوس ہوا۔ انہوں نے بڑے واضح انداز میں ہم سے یہ بُری خبر شیئر کی کہ بونیر میں آج بھی دودھ کی ندیاں جوں کی توں بہتی نظر آرہی ہیں۔

ویسے تو ہمیں ان پر یقین تھا، لیکن میں ان کی اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہ رہا تھا، اس لیے کہا کہ وہاں کی کچھ تازہ تصاویر ہمیں بھیجیے تاکہ ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔

جب مجھے وہاں سے کوئی اچھی خبر نہٰں ملی تو سوچا کہ بھلا اب اس پر کیا لکھا جائے؟ یوں ارادہ ترک کردیا۔ لیکن پھر 2، 4 دن گزرنے کے بعد سوچا کہ صحافی کا کام خواہش کو خبر بنانا تو نہیں ہوتا، ہاں یہ حقیقت ہے کہ میری خواہش یہ تھی کہ دریائے برندوں بھی صاف و شفاف نظر آئے جس طرح آج سے 20 یا 25 سال پہلے نظر آتی تھی لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس حوالے سے کچھ لکھا نہ جائے۔

بونیر میں لاک ڈاؤن کے ماحولیات پر مثبت اثرات مرتب کیوں نہیں ہوئے؟

اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو لاک ڈاؤن کے دوران بھی تمام فیکٹریاں بند نہیں ہوئیں، دوسرا اگر فیکٹریاں بند ہو بھی جائیں تو برندوں میں براہِ راست اور اطراف سے آنے والے چھوٹے چھوٹے چشموں کے ذریعے ماربل کا اتنا کیچڑ آیا ہے کہ ان کو صاف ہونے کے لیے بھی مہینے درکار ہوں گے۔

ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا کے ماحولیات پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں تو لاک ڈاؤن کے خاتمے سے ماحولیات پر دوبارہ ہم انسانوں کی پیدا کردہ آلودگی کے منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوجائیں گے۔

آلودگی کے اثرات سے بچنا اتنا آسان بھی نہیں ہے اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی چیزوں یا طریقوں کے متبادل کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری چاہیے ہوگی۔

اگرچہ بونیر ماربل فیکٹریوں کی آلودگی لاک ڈاؤن میں تو ختم نہیں ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہم مایوس ہوجائیں۔ امید کی کرن اب بھی روشن ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ اس کام کو کرنے کے لیے سرکار کو ایک روپیہ خرچ کرنے کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ اس مسئلے کو سمجھنے اور سمجھ کر سنجیدگی سے حل کرنے کی نیت درکار ہے۔

یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ یہ آلودگی درحقیقت انتظامی غفلت کی وجہ سے ہے اور انتظامیہ جب چاہے اسے ختم کرسکتی ہے، اس حوالے سے گزشتہ بلاگ میں تجاویز بھی دی تھیں لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود حکام کی جانب سے کوئی عملی اقدام نظر نہیں آیا۔

اس لیے ایک بار پھر ان تجاویز کو پیش کیا جارہا ہے، کہ شاید بات بن جائے، اور اگر ایسا ہوگیا تو صرف ان نہروں کو ہی نئی زندگی نہیں ملے گی، بلکہ تربیلا ڈیم کو لاحق سنجیدہ خطرات کو بھی ختم کرنا ممکن ہوسکے گا۔

حکومت کو مندرجہ ذیل اقدمات کرنے کی ضرورت ہے

  • بونیر میں ایک ماربل انڈسٹری زون قائم کیا جائے اور تمام کارخانوں کووہاں منتقل کیا جائے۔
  • فیکٹری مالکان کو پابند بنایا جائے کہ وہ زیرِ زمین ٹینک بنائیں تاکہماربل کا کیچڑ بونیر کی ندیوں میں خارج ہونے سے روکا جاسکے، یوں ندیوں کاپانی، زراعت، آبی حیات اور تربیلا ڈیم، سب کو بچایا جاسکتا ہے۔
  • ماربل کے صنعتی زونز کے لیے بجلی کی فراہمی کا الگ سے بندوبست کیا جائےاور کارخانوں کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کیا جائے، اس طرح جہاں کارخانوںکی پیدوار میں اضافہ ہوگا وہیں گھریلو صارفین کو لاحق کم وولٹیج کامسئلہ بھی ختم ہوجائے گا۔

اب یہاں لاک ڈاؤن تو کوئی کمال نہ کرسکا اس لیے امیدیں ایک بار پھر حکومت سے بندھ جاتی ہیں کہ وہ فیکٹریوں کو پابند بنائے کہ جس طرح ملک کے دیگر حصوں اور خصوصاً کراچی ماربل انڈسٹری میں فیکٹریوں کے زیرِ زمین ٹنکیاں بنائی گئی ہیں اسی طرح بونیر ماربل فیکٹری مالکان بھی زیرِ زمین ٹنکیاں بنائیں اور کیچڑ کو برندوں اور دیگر چشموں میں شامل ہونے سے روک لیں۔

Read Comments