اردو کی خدمت کرنے والوں میں ایک نمایاں نام پنڈت برج موہن دناتریہ کیفی کا ہے جنہوں نے اردو زبان کی مختصر تاریخ اور اس کی انشا اور املا وغیرہ سے متعلق اہم امور پر بحث کی ہے اور ’کیفیہ‘ کے نام سے کتاب مرتب کی ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس کتاب کے پڑھنے سے پہلے قواعدِ اردو کی واقفیت ضروری ہے ورنہ اس سے فائدہ اٹھانا مشکل ہوگا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ ہم نہ پڑھیں۔ اس کتاب میں سے جو کچھ سمجھ میں آئے گا وہ قارئین تک پہنچاتے رہیں گے۔
اہلِ زبان اور اختراع کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ ان لوگوں کے مذاق پر عموماً اعتبار کیا جاتا ہے اور ان کی رایوں کو وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو پشتوں سے ایک زبان بول رہے ہیں اور جنہیں عرفِ عام میں اہلِ زبان کہا جاتا ہے۔ عموماً صحت اور فصاحت کی سند ان سے لی جاتی ہے۔ لیکن قوموں میں سیاسی اور سماجی جمود کی طرح ادبی اور لسانیاتی جمود بھی حاوی ہوجایا کرتا ہے۔ اس صورت میں وہ استبداد اور قدامت پرستی کے مرض میں مبتلا ہوجایا کرتی ہیں اور ہر اختراع کو بدعت قرار دے دیتی ہیں۔
ان کی بات درست ہے، لیکن اب اہلِ زبان کا امتیاز ختم ہوتا جارہا ہے۔ خود اہلِ زبان کہلانے والوں کی زبان بگڑ گئی ہے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اہلِ زبان وہی ہے جو زبان کا صحیح استعمال کرے خواہ پشتوں سے کوئی اور زبان بولتا آیا ہو، یا اس کے اجداد اردو نہ بولتے ہوں۔ کتنے ہی پنجابی اہلِ قلم اور شاعر مستند اردو لکھتے ہیں اور لکھتے رہے ہیں۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔