’اگر میں نے بچوں کو بتادیا کہ میں جوکر ہوں تو وہ مجھ سے نفرت کریں گے‘

جوکر
وہ پچھلے 15 سال سے بغرضِ مجبوری ایک سرکس میں بطور جوکر ملازمت کررہا تھا اور پچھلے 15 ہی سال سے اس نے شیشے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھا تھا سو اسے بھول گیا تھا کہ اس کا اپنا چہرہ کون سا ہے اور جوکر کا چہرہ کون سا۔
لوگوں کے بچے اس کے ساتھ تصویریں بنواتے اور وہ اپنے بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرتا۔ اس نے کبھی اپنے بچوں کو نہ بتایا کہ وہ ایک جوکر ہے۔ اسے ڈر تھا کہ اس کے بچے یہ جاننے کے بعد اس سے نفرت کرنے لگیں گے کیونکہ وہ خود بھی اس کام کو ناپسند کرتا تھا لیکن اس کے پاس روزگار کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ خوف کے ایک عجیب سے خول میں بند تھا جس کے بارے میں وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا۔
ایک روز اس کا بیٹا اسکول کے دوسرے بچوں کے ساتھ سرکس دیکھنے آیا۔ جب تک جوکر کی نظر اپنے بچے پر نہ پڑی تھی، وہ اِدھر سے اُدھر اچھل کود کرکے بچوں کو ہنساتا رہا، پھر اچانک سیڑھیوں سے گزرتے ہوئے، اسے اپنا بیٹا نظر آیا تو اس نے فوراً چہرے پر ہاتھ رکھ لیا اور چیخ کر کہا۔
‘تم یہاں کیا کررہے ہو؟’
بچے نے کہا ‘پیارے جوکر! میں تمہارے ساتھ تصویر بنوانے آیا ہوں۔‘
خواہش
‘تمہیں اجازت مل تو سکتی ہے لیکن پھر بھی کم از کم ایک سپاہی کو ایسے میں تمہارے ساتھ ضرور ہونا چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں وہ تمہیں پکڑ سکے۔‘
‘لیکن میں کہیں فرار نہیں ہورہا اور یہ میری آخری خواہش ہے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔’
‘ہمیں تمہاری خواہش کا احترام ہے اسی لیے مشروط اجازت دے رہے ہیں۔‘
‘پھر میری کوئی خواہش نہیں ہے آپ انصاف کے تقاضے پورے کریں۔‘
‘ٹھیک ہے، آخری خواہش کچھ ایسی ضروری بھی نہیں، تم پھانسی چڑھ سکتے ہو، اور اطمینان رکھو ہم فیصلے کی دستاویز میں لکھ دیں گے کہ تم نے مرنے سے پہلے ایک طویل گہرا سانس لیا تھا۔‘
اسکریپ میں ملا جسم
اسے محسوس ہوتا کہ اس کا جسم بھی پرانے گیسٹ ہاؤس میں پڑے زنگ آلود بینچ کی طرح ہوچکا ہے، جس پر سوائے زنگ کے کوئی دوسرا رنگ باقی نہیں رہا۔ گیسٹ ہاؤس میں مہمانوں کی آمد و رفت مدت سے ختم ہوچکی ہے لیکن قصبے کے لوگ اب بھی کبھی کبھار عمارت میں داخل ہوکر قابلِ استعمال اشیاء ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
عمارت میں اب اینٹوں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا کہ آخری کھڑکی کچھ ماہ قبل قصبے کا چوکیدار اتار کر لے گیا تھا اور اب وہی کھڑکی اس نے اپنے گھر کی بیرونی دیوار میں نصب کر رکھی ہے جہاں اس کے بچے گلی سے گزرتے لوگوں کو پتھر مارتے رہتے ہیں اور چوکیدار ان کے اس عمل پر ناراض ہونے کی بجائے خوش ہوتا ہے۔
جب قصبے کے لوگ چوکیدار کے پاس اس کے بچوں کی شکایت لے کر آتے ہیں تو وہ جھوٹ موٹ اداسی بھرا چہرہ لے کر کہتا ہے ‘مجھے بہت افسوس ہے، آئندہ ایسا نہیں ہوگا لیکن پھر ایسا ہوجاتا ہے۔‘
کل وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ آیا اور گیسٹ ہاؤس کی بیرونی دیوار سے اینٹیں چرا کر گھر لے گیا تاکہ ایک بڑا باورچی خانہ بنایا جاسکے۔
اب اینٹوں کے علاوہ یہاں صرف زنگ آلود بینچ ہے جو کسی کو نظر نہیں آتا۔
اس آدمی کو اس بنچ سے محبت ہے، جسے دیکھ کر اسے اپنا جسم یاد آجاتا ہے۔
معیشت کا فرق
روٹین کا دائرہ
فریب
لکڑ بگھا قریب بیٹھا مجھے ہمدردی سے دیکھ رہا تھا۔
‘یہ کیا، تم نے میرے بچوں کی کتابوں میں بم رکھ دیے؟‘
اب یہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ انہیں اسکول میں پھوڑیں یا گھر پر یا بیچ چوراہے میں۔‘
لکڑ بگھا کوئی جواب دینے کی بجائے مکارانہ ہنسی ہنستا رہا۔
میں نے بچوں کو بہت سمجھایا کہ بچے بموں سے نہیں کھیلتے، بم تو انسانوں کے لیے بے حد خطرناک ہیں۔
میں یہ سب سمجھا کر سو گیا تھا۔
صبح اٹھا تو بم میری جیب میں تھے اور میں بازوؤں اور ٹانگوں کو ہلانے سے قاصر تھا۔
لکڑ بگھا دُور بیٹھا ہنس رہا تھا۔
دوسری خبر
اب وہ تیسری بیوی کی تلاش میں ہے اور باقاعدگی سے اخبار میں ‘ضرورتِ رشتہ ‘کا صفحہ پڑھتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔