Dawn News Television

شائع 03 اگست 2013 09:02am

پی ٹی آئی اور تبدیلی

پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے جوشیلے اس بات پر مایوس ہوئے کہ سونامی نہیں آیا-

تاہم بہت سے بالغ النظر تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ بھلے سونامی آیا یا نہیں، پارٹی نے کافی اچھی کارکردگی دکھائی ہے- یہ ایک تالاب کی ایک چھوٹی سی مچھلی کے درجے سے اٹھ کر تھوڑے ہی عرصے میں ملک کی دوسری سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پارٹی بن گئی ہے- اس کی ایک خاص حیثیت بن گئی ہے اور اس کا مستقبل روشن ہے-

میں اس بات سے خاصی حد تک متفق بھی ہوں لیکن میرے لئے جو بات مایوس کن ہے، وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی وہ تبدیلی نہیں لا سکی جس کا اس نے وعدہ کیا تھا، اور حد یہ کہ کئی چہرے تک نہیں بدلے ہیں- یہ بھی اسی دھینگا مشتی میں شامل ہو گئی ہے اور دوسروں کے جیسی بن گئی ہے- مجھے ڈر ہے کہ الیکشن تک، اس میں اور دوسروں میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاۓ گا-

یہ ہیں وہ چار وجوہات، جن کی وجہ سے میں ایسا سوچتا ہوں-

نمبر ایک : پی ٹی آئ والے بھی اندھی تقلید کرتے ہیں:

بلکل پی پی پی اور پی ایم ایل-این والوں کی طرح، پی ٹی آئی والے بھی اپنی پارٹی کو ایک مذہبی فرقہ نہ سہی ، لیکن ایک مسلک کی طرح ضرور مانتے ہیں- وہ عقیدت مند ہیں، پیرو کار ہیں، اور مرید ہیں- یہ ایک پارٹی کارکن ہونے کے متضاد ہے-

وہ اپنی جماعت کی پالیسی، بیانات اور مقاصد پر تنقید نہیں کرتے- اپنی خود کی پارٹی پالیسی پر سوال اٹھانا ہمارے سیاسی کلچر میں ایک گناہ کی طرح سمجھا جاتا ہے، اور پی ٹی آئی نے اسے تبدیل نہیں کیا-

ایسے رویے کو بغاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ جاگیر دارانہ ذہنیت کی عکاس ہے- تو بجاۓ اس کے کہ وہ اپنی جماعت کے ساتھیوں اور مخالفین سے اہم معاملات پر گفت و شنید کریں، وہ خود ہی اپنا دفاع کرنے اور اپنے اقدامات کو واجب ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اپنے پارٹی لیڈروں کی حرکتوں اور باتوں پر پردہ ڈالتے ہیں-

سیاست میں رہنے کا انکا حق اس بات پر ہے کہ ان کے سوا باقی سب بد عنوان ہیں، ان کا مقام اونچا ہے، بے داغ ہے اور شفاف ہے- ان کا سب سے برا ووعدہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ تھی جسے انہوں نے اکسیر اعظم کے طور پر پیش کیا-

لیکن جب وہ خود ہی اپنی پارٹی میں کچھ بدعنوان سیاست دانوں کو جگہ دیتے ہیں تو وہ اپنے سب سے بڑے موٹو کو جھٹلاتے ہیں- ان کے کارکن نہ صرف یہ کہ ان اقدامات پر اختلاف نہیں کرتے بلکہ اپنی پارٹی کی اسی جوش و خروش کے ساتھ حمایت کرتے رہتے ہیں- یہ پاکستانی جماعتوں میں عام بات ہے-

سیاستدان، ایسے بے عقل پیروکاروں کے غول پسند کرتےہیں- وہ اپنی پارٹی میں تنقید کرنے والوں کو جگہ نہیں لینے دیتے اور نا ہی اپنی پارٹی میں ایسا نظام یا طریقہ کار نافذ کرتے ہیں جس میں پارٹی پالیسیوں پر کی جانے والی تنقید پر غور کیا جاۓ- پی ٹی آئی اس سے مختلف نہیں ہے-

نمبر دو: وہ اپنے مخالفوں سے نفرت اور انکی تذلیل کرتے ہیں:

میرے خیال سے سیاسی کارکنوں میں خود مصلح پسندی کا تھوڑا سا خمار ہونا چاہیے لیکن یہ اس وقت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے جب کوئی اسے اپنے سر پر سوار کر لے- وہ اپنے آپ کو ایک بلکل مختلف مخلوق سمجھنے لگے، دوسروں سے برتر- یہ تکبر و غرور سیاسی مکالمے اور مباحثے کی راہ روکتے ہیں، یہاں تک کہ عوامی رابطے میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں-

پی ٹی آئی والوں کے پاس اپنے مخالفین کے لئے تین رویے ہیں-

وہ اپنی پارٹی سے باہر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بے عقل، بیوقوف سمجھتے ہیں جن کی منزل صرف صعوبتیں ہیں- وہ لوگ بد قسمت ہیں، وہ دھرتی کا بوجھ ہیں، جنہیں روشنی تو نظر آئی لیکن اسے پہچاننے کا سنہری موقع انہوں نے کھو دیا- یہ زیادہ تر دیہاتوں میں رہتے ہیں- پی ٹی آئی والوں کو ان سے ہمدردی ہے-

دوسرے درجے پر وہ ہیں جو سادہ لوح نہیں ہیں، روایتی بوسیدگی میں جکڑے ہوے یہ لوگ ادھ پڑھے لکھ ہیں، چھوٹے بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور جن کی مشترکہ سیاسی جستجو ہے-

لیکن جو بات پی ٹی آئی والوں کو حیران کرتی ہے وہ یہ کہ اگر کسی کے پاس سیاسسی سمجھ کا شائبہ بھی ہے تو آخر وہ پی ٹی آئی میں شامل کیوں نہیں ہو جاتے؟ تو یہ وہ لوگ ہیں جن کو غلام بنا دیا گیا ہے اور ان کے لیڈروں نے انہیں اندھا کر دیا ہے- اس سے پی ٹی آئی والوں کو سخت کوفت ہوتی ہے اور ان کے نزدیک یہ حقیر سیاسی کٹھ پتلیاں ہیں-

سب سے آخر میں آتے ہیں اخباری مجرم، ان کی مخالف پارٹیوں، لیڈروں اور ان کے نمائندوں کی سب سے اوپری پرت- یہ سب ڈاکو لٹیرے ہیں اور یہ اس ملک کی بیماری کی اصل وجہ ہیں، جب تک وہ پی ٹی آئی کا مصبوط بازو بن کر دوبارہ جنم نہیں لے لیتے-

نمبر تین: انھیں بھی نظریہ سازش کا مرض لاحق ہے :

جب بھی کسی سیاسی عمل پر اظہار خیال کی باری آئے، پاکستانی جماعتوں کا پسندیدہ مشغلہ اسے سازش قرار دینا ہے، جو زیادہ تر غیر ملکی طاقتوں کا شاخسانہ ہوتی ہے- یہ چیز جماعتی دانشوارانہ گفت و شنید کے فقدان کی عکاس ہے- ان کے پاس نہ تو بصیرت ہے اور نہ ہی ان کے پاس ان مشکل سوالوں کے مناسب جوابات ہیں جو موجود سیاسی حالات میں سامنے آ رہے ہیں-

نظریہ سازش کو کوئی بھی آسانی سے قبول کر لیتا ہے- وہ اس کا الزام اپنی وسعت نظر سے دور موجود طاقتوں پر لگا دیتے ہیں، اور یہ جن سے نجات ہمارے بس کی بات نہیں- یعنی سوائے ان بری طاقتوں پر غرانے بہت کم ہی کچھ کی جا سکتا ہے- ان طاقتوں کا طرز عمل مشکل اور پوشیدہ ہوتا ہے چناچہ کوئی بھی واقعہ توڑ مروڑ کے اس نظریہ میں فٹ کیا جا سکتا ہے- تو یہ طاقتیں معصوم مسلمانوں کو خود کش حملے کا نشانہ بناتی ہیں اور اور اس کے بعد فورسز کی جانب سے حملے کئے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو ان کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے-

طالبان سے لے کر ملالہ تک، بلوچستان سے ممبئی حملہ، اور عائلہ ملک کی جعلی ڈگری سے لے کر علیم خان کے ملٹی بلین روپوں کی لینڈ سکیم تک، وہ نہیں ہے جو آپ کو نظر آتا ہے- یہ سب سازشیں ہیں-

سازشی نظریے اس بات کو چیلنج کرتے ہیں کہ سیاست ایک قابل فہم سائنس ہے، اور یہ کہ گروہوں اور جماعتوں کے مفادات کو آپس میں جوڑا اور سیاسی مقاصد کو احتیاط سے تیار کی گئی حکمت عملی کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے-

انہوں نے اس کے بجاۓ لوگوں کو بدقسمت متاثرین میں تبدیل کر دیا ہے جن کا اپنے کرشماتی لیڈروں کے آگے جھکنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں رہ گیا-

پاکستان کے سیاسی کلچر میں، سازشی نظریے ایک صحتمند سیاسی نظریے کے متبادل ہیں، اس نے طویل مدتی بصیرت کی جگہ لے لی ہے-

پی ٹی آئی کا بھی سازشی نظریوں پر انحصار دوسروں سے کم نہیں-

نمبر چار: اس پارٹی کا ڈھانچہ بھی دوسروں سے مختلف نہیں-

آج تک اس ملک میں کوئی بھی پارٹی جمہوری ڈھانچے کے ساتھ نہیں بنی- یہ ایسے مسلک ہیں جی کے لیڈر کرشماتی شخصیت کے حامل ہیں- یہاں مافیا ہیں جنہیں مجرموں کے گروہ چلاتے ہیں- یہاں انجمنیں ہیں جنہیں مذہبی رہنما چلاتے ہیں- یہاں سلسلہ شاہی اور خاندانی عداوتیں ہیں مگر کوئی جماعت نہیں ہے- پی ٹی آئی نے ایسا دعویٰ کیا تو تھا، لیکن کر نہیں پائی-

اس کا کوئی بھی قدم یہ ظاہر نہیں کرتا کہ یہ دوسروں سے مختلف ہے- پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن شرمناک تھے- پارٹی الیکشن کروانا سب کے لئے قانونی ضرورت ہے- الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ 250 سیاسی جماعتوں ہیں اور وہ تمام یہ ضرورت پوری کرتی ہیں- یہی رسم میڈیا کی نمائش کے ساتھ کرنے سے کوئی مختلف نہیں ہو جاتا-

مزید اہم بات، یہ جمہوری برتری پارٹی کے طرز عمل اور فیصلوں میں سے کسی میں نظر نہیں آتی- خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی تین خواتین، خیبر پختون خواہ کے وزیر علیٰ کی قریبی رشتہ دار ہیں-

یہی حال ان پارٹیوں کا بھی ہے جن کا کوئی 'جمہوری ڈھانچہ ' نہیں ہے اور جنہیں پی ٹی آئی نے خاندان شاہی قرار دیا ہے- تو چاہے پی ٹی آئی نے اصلی پارٹی انتخابات کرواۓ ہوں یا نہ کرواۓ ہوں، اس کا سیاسی کلچر بہرحال یہی ہے-

تمام پہلوؤں کا یہی حال ہے- پی ٹی آئی نے بھی ٹکٹ انہی پرانے سیاست دانوں کے گروہ کو دیا ہے جو فراڈ ہیں، ٹیکس نا دہندگان ہیں، اور جعلی ڈگری رکھتے ہیں-

لیکن سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ، ہمیں اکثر بیشتر ایسے خاموش، بے غرض جیالوں کے بارے پتا چلتا ہے جو پارٹی کے اندر ایک بہادرانہ جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں اور اپنی زندگی، کیریئر اور نا معلوم کیا کچھ پارٹی کے لئے قربان کر دیتے ہیں اور پھر اچانک انھیں پارٹی سے بغاوت کی وجوہات مل جاتی ہیں-

یہ بہادر انقلابی جن کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ملین ڈالر کی پیشکش ٹھکرا کر پارٹی کی خدمات کو اپنا مقصد بنا لیتے ہیں، عموماً انتہائی چھوٹے فائدے کے لئے بک جاتے ہیں- اور اس سے بھی زیادہ ناگوار وہ تماشا ہے جو ایسی بغاوت کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے-

شیریں مزاری استعفیٰ دیتی ہیں اور پھر شامل ہو جاتی ہیں- فوزیہ قصوری استعفیٰ دیتی ہیں اور پھر شامل ہو جاتی ہیں-

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پارٹی میں ادارتی سطح پر اندرونی فیصلہ سازی نہیں ہوتی اور دوسروں کی طرح یہ بھی اوپر سے آنے والے نظام سرپرستی کے تحت زندہ ہے-


طاہر مہدی، ایک ریسرچ اور ایڈوکیسی گروپ، پنجاب لوک سجاگ کے لئے کام کرتے ہیں- اس گروپ کی بنیادی دلچسپی اسلوب حکمرانی اور جمہوریت کو سمجھنا ہے-

ترجمہ: ناہید اسرار

Read Comments