Dawn News Television

شائع 05 اگست 2021 10:00am

ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ بیٹیاں پرایا نہیں اپنا دھن ہیں!

'اے میری ماں، محبوب سے جدائی کے درد نے جو میرا حال کردیا ہے وہ میں کِسے سناؤں؟ میرے سینے سے میرے مرشد کا دھواں اُٹھ رہا ہے، میری روح انگاروں پر دہک رہی ہے، ہجر کے کانٹوں سے جسم چھلنی ہوکر میں دیوانہ ہوچکا ہوں، مگر ہر وقت محبوب کے عشق میں ڈوبا رہتا ہوں، اب تو یہ معمول ہے کہ دُکھ ہی روٹی ہے اور ہجر کو سالن سمجھ کر آہوں کی آنچ پر رکھ دیتا ہوں'۔

— شاہ حسین


وہ 29 جنوری 1954ء میں امریکی شہر ميسيسپی کے دُور دراز فارم پر پیدا ہوئی۔ اس کے والدین غیر ازدواجی پارٹنرز تھے جو اس کی پیدائش کے بعد الگ ہوگئے۔ وہ فارم پر اپنی نانی اماں کے پاس رہنے لگی۔ اس کی نانی بہت غریب تھیں۔ وہ اسے آلوؤں کی خالی بوریاں کاٹ کر لباس بنا دیتیں، جب وہ اسے پہن کر باہر جاتی تو بچے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس کی نانی پڑھائی کے معاملے میں سخت گیر تھیں اسی لیے اس نے ڈھائی سال کی عمر میں پڑھنا سیکھ لیا۔

اسے جب اسکول داخل کروایا گیا تو اس نے پہلے دن اپنی ٹیچر کے نام ایک نوٹ چھوڑا کہ وہ کے جی کلاس کے بجائے پہلی کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ اسے پہلی کلاس میں بٹھا دیا گیا اور اگلے ہی سال وہ تیسری کلاس میں پہنچ گئی۔ اسے بچپن سے ہی اداکاری کا شوق تھا اور وہ کھیل کھیل میں اداکارہ بن جاتی جبکہ فارم کے جانور اس کے سامعین ہوتے۔

جب وہ 6 سال کی ہوئی تو اسے اس کی ماں کے پاس بھیج دیا گیا جہاں حالات نہایت ابتر تھے۔ اس کی ماں گزر بسر کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی سو اس کی مناسب دیکھ بھال کرنے سے قاصر تھیں اسی لیے جب اس کی ماں کو بچوں کو پالنے میں مشکل ہوئی تو اسے اس کے باپ کے پاس بھیج دیا۔ اس وقت اس کی عمر تقریباً 12 سال تھی۔ وہاں اس نے خود کو کچھ عرصے کے لیے خوش اور محفوظ محسوس کیا۔

اس نے سماجی محفلوں میں تقریریں کرنا شروع کردیں اور ایک بار اس نے 500 ڈالر بھی کمالیے۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ اسی طرح سے پیسے کمانے لگے مگر ایک دن اچانک اس کی ماں نے اسے اپنے پاس واپس بلوالیا اور اسے اپنے والد کا پُرسکون گھر چھوڑنا پڑا۔ اس کی ماں کے حالات ویسے ہی دگرگوں تھے، غربت کے ساتھ ساتھ وہاں اسے کم عمری میں ہی خاندان کے دیگر افراد کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں بھی کیا گیا۔ ماں کی تربیت میں عدم دلچسپی کے باعث وہ دل میں سوچتی تھی کہ وہ کبھی ماں نہیں بنے گی۔

اسے لنکن ہائی اسکول میں داخلہ مل گیا جہاں اس کی کارکردگی شاندار تھی مگر اسے نکولٹ ہائی اسکول بھیج دیا گیا جہاں اسے اس کی غربت کا شدت سے احساس ہوتا تھا۔ اس کے اسکول کے ساتھی کافی شاہ خرچ تھے۔ اس نے ان کے ساتھ رہنے کی کوشش میں اپنی ماں کے پیسے چرانے شروع کردیے۔ جب اس کی ماں کو پتا چلا تو اسے اس کے باپ کے پاس بھیج دیا گیا جو اس کے لیے نیک شگون ثابت ہوا۔ اس کے والد سخت گیر تھے مگر وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ انہوں نے اس کی تعلیم کو پہلی ترجیح بنایا اور اسے کتابوں سے روشناس کروایا۔

وہ اس سے ہفتہ وار کتابیں پڑھ کر ان کی رپورٹ مانگتے۔ وہ ہر رات اس سے ڈکشنری سے یاد کیے گئے 5 نئے الفاظ سُنے بنا رات کا کھانا نہیں دیتے تھے۔ اسی تربیت کی وجہ سے وہ اسکول کی سب سے ہونہار طالبہ شمار ہونے لگی۔ وہ ڈرامہ کلب، ڈبیٹنگ کلب اور اسکول کونسل کی متحرک رُکن بن گئی۔ اس کی انہی صلاحیتوں کی بنا پر اس کو یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ اگلے ہی سال وائٹ ہاؤس میں نوجوانوں کی ایک کانفرنس میں اسے بھی مدعو کیا گیا۔

اس نے ایک گروسری اسٹور پر اپنی پہلی نوکری سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس کے شہر میں ایک مقابلہ حسن منعقد ہو رہا تھا۔ اس نے مقابلے میں شرکت کی اور 17 سال کی عمر میں وہ 'مس ٹینیسی' بن گئی۔ اسی دوران وہ ایک ریڈیو اسٹیشن والوں کی نظروں میں آگئی اور اسے ریڈیو اسٹیشن پر خبریں پڑھنے کی نوکری مل گئی۔

تھوڑے عرصے بعد ہی 'دی نیشول کولمبیا براڈ کاسٹنگ سسٹم' نے اسے نوکری کی پیشکش کی جسے اس نے 2 بار ٹھکرا دیا مگر جب تیسری بار اسے یہ پیشکش ہوئی تو اس نے اپنی اسپیچ ٹیچر سے مشورہ کیا جنہوں مشورہ دیا کہ 'ایسی نوکری کے لیے تو لوگ ڈگری لینے کالج جاتے ہیں، تم یہ پیشکش قبول کرلو'، لہٰذا اس نے نوکری کے لیے ہاں کردی۔ اس ایک فیصلے نے اُس کی زندگی بدل دی۔ وہ تب صرف 19 سال کی تھی اور ابھی اس کی ڈگری بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ پہلی امریکی افریقی خاتون اینکر بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔

چند سال وہ مختلف ٹی وی چینلز پر کام کرتی رہی اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارتی رہی۔ 1984ء میں اسے مارننگ شو میں میزبانی کی نوکری مل گئی۔ وہ شو ریٹنگز میں آخری نمبروں پر آتا تھا مگر چند ماہ بعد ہی اس نے شو کی کایا پلٹ دی اور وہ شو پہلے نمبر پر آگیا، اسی لیے اس شو کا نام بھی اس کے نام پر رکھ دیا گیا۔

8 ستمبر 1986ء کو اس کے شو کی پہلی قسط نشر ہوئی تو وہ بہت مقبول ہوا۔ 1993ء میں جب مائیکل جیکسن نے سالوں بعد اپنا پہلا انٹرویو دینے کے لیے اس کے شو کا انتخاب کیا تو اس انٹرویو نے امریکی ٹیلی ویژن کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس کا شو امریکی تاریخ کے مقبول ترین شوز میں شمار ہوتا رہا جو 1986ء سے 2011ء تک چلتا رہا۔ اس نے بہت سی کامیاب فلموں میں اپنی شاندار اداکاری سے لوگوں کو محظوظ کیا۔ اس کی فلموں میں 'دی کلر پرپل'، 'دی پرنسز اینڈ فراگ' اور 'سیلما' نمایاں ہیں۔

وہ بہترین لکھاری بھی ہے اور اس کی کتابیں بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں۔ اس کی کتابوں میں 'وٹ آئی نو فار شور' اور 'دی پاتھ میڈ کلیئر ڈسکورنگ یور لائف اینڈ پرپز' وغیرہ شامل ہیں۔ اس کا 'بُک کلب' بہت مشہور ہوا جس میں کتابوں کو پڑھ کر اس پر بحث کی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے امریکا میں لوگوں کو کتاب پڑھنے کی طرف اتنا راغب نہیں جتنا اس نے کیا۔

2003ء میں اس کا شمار ارب پتی لوگوں میں ہونے لگا اور اب اس کی دولت تقریباً 3 ارب ڈالر ہے۔ وہ فلاح عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ اس کو امریکا کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی انتہائی بااثر خواتین میں شمار کیا جاتا ہے اور دنیا ان کو 'اوپرا ونفری' کے نام سے جانتی ہے۔

چاہے بیٹا ہو یا بیٹی، دونوں ہی ماں باپ کا نام روشن کرسکتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں اکثر مائیں ہی بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دیتی ہیں۔ رات کو سوئے ہوئے بیٹوں کو اٹھا کر دودھ کا گلاس پلاتی ہیں مگر بیٹیوں کو کم کھانے کی تلقین کی جاتی ہے کہ جلدی جوان نہ ہوجائیں۔

کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں 'پرایا دھن' ہیں، انہیں پڑھا لکھا کر کیا کریں گے؟ دیہی علاقوں میں پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی رہتی ہے وہاں پرائمری یا مڈل کے بعد بچیوں کی تعلیم کو آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جن علاقوں میں ہائی اسکول نہیں وہاں بچیاں خاص کر 8ویں جماعت کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہیں کہ ساتھ والے گاؤں جہاں ہائی اسکول ہے وہاں جوان بچی پڑھنے جائے گی تو لوگ کیا کہیں گے؟ ویسے بھی یہ 'چڑیوں کا چمبا ہیں، انہیں ایک دن اڑ جانا ہے' اگلے گھر جاکر چولہا چوکھا ہی تو کرنا ہے۔ پڑھ کر کون سا 'میم' لگ جانا ہے؟ جس گھر میں 4، 5 بچے ہیں وہاں بیٹیوں کو اچھے کالج یا یونیورسٹی بھیجتے ہوئے بھی کئی بار سوچا جاتا ہے۔

شادی بیاہ کے وقت بیٹیوں کو 'ڈولی' میں بٹھاتے ہوئے اس بات کی تلقین کی جاتی تھی کہ اب گھر میں تمہاری لاش ہی آئے، تم خود اپنا گھر چھوڑ کر مت آنا، اب فرق اتنا ہی آیا ہے 'ڈولی' کی جگہ کار نے لے لی مگر اسی پرانی نصیحت کی وجہ سے سیکڑوں لاشیں ہر سال میکے آتی ہیں۔ ہر روز ٹی وی پر کسی مظلوم عورت کی کہانی کے ٹکرز چل رہے ہوتے ہیں۔

بیٹے کو نسل آگے بڑھانے کا مؤجب قرار دے کر ہر جگہ فوقیت دی جاتی ہے جس کا نہ تو ہمارے دین نے کہا ہے اور نہ ہی مہذب معاشرے اس کا درس دیتے ہیں۔ ہمارے دین میں تو بیٹیوں کو رحمت کا رتبہ دیا گیا ہے، لیکن نہایت دُکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ انہیں زحمت اور اک بوجھ سمجھتا یے۔ جو لوگ بیٹی کو رحمت سمجھتے بھی ہیں تو ان کو بہن بھائی، خاندان اور معاشرے والے جینے نہیں دیتے۔

آنکھوں دیکھی کہانی سنیے: خالہ شریفاں ہمارے محلے میں رہتی تھیں۔ ان کے شوہر مزدور تھے جنہیں کبھی کام ملتا تھا اور کبھی نہیں۔ خالہ شریفاں کی 3 بیٹیاں اور 5 بیٹے تھے۔ خالہ شریفاں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محلے کے گھروں کا کام بھی کیا کرتی تھیں۔ سارے محلے والے بھی ان کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بہت مشکل سے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا۔ ان کے پانچوں بیٹے برسرِ روزگار ہوگئے اور انہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں بھی کردیں۔

بیٹے ایک ایک کرکے اپنی بیویوں کے ساتھ الگ ہوتے گئے آخر میں خالہ شریفاں اور ان کے شوہر اکیلے رہ گئے۔ جن بیٹوں کو ہزاروں خواب آنکھوں میں لیے لوگوں کے گھروں میں برتن دھو دھو کر پڑھایا لکھایا ان کے گھر میں بوڑھے ماں باپ کے لیے جگہ نہ رہی۔ خالہ شریفاں کے شوہر بیماری کے ہاتھوں شکست کھا کر اس جہان سے چلے گئے تو ان کی بیٹیوں سے ماں کی بے قدری دیکھی نہیں گئی اور وہ انہیں اپنے گھر لے گئیں۔

ایسی بے تحاشا کہانیاں ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں جو چیخ چیخ کر کہتی ہیں کہ بیٹیاں کسی بھی طرح بیٹوں سے کمتر نہیں ہیں۔ یہ 'اپنا دھن' ہیں لہٰذا ان کو بھی پیار، اچھی تعلیم و تربیت دیں تاکہ یہ آپ کی نیک نامی کا باعث بنیں۔


تصاویر: Oprah.com

Read Comments