Dawn News Television

شائع 06 نومبر 2021 10:53am

ٹی 20 ورلڈ کپ: نیوزی لینڈ کی قسمت کا فیصلہ اب اس کے اپنے ہاتھ میں

متحدہ عرب امارات میں جاری ٹی20 ورلڈ کپ میں یکطرفہ مقابلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک اس ٹورنامنٹ میں کھیلے گئے 37 میچوں میں سے صرف 4 میچ ایسے ہیں جو آخری اوور تک گئے ہیں۔ ان یکطرفہ مقابلوں میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

عالمی کرکٹ کا بیڑا اٹھانے والے اس ادارے نے 17 اگست کو بذریعہ ای میل اعلان کیا تھا کہ اگر سری لنکا اور بنگلہ دیش ٹورنامنٹ کے سپر 12 مرحلے کے لیے کوالیفائی کرجاتے ہیں تو ان کی رینکنگ سے قطع نظر دونوں کو اے 1 اور بی 1 رکھا جائے گا اور اس ترتیب کے مطابق سری لنکا کو گروپ 1 جبکہ بنگلہ دیش کو گروپ 2 میں جانا تھا۔ تاہم 20 اکتوبر کو آئی سی سی نے بغیر کوئی وجہ بتائے اپنا فیصلہ تبدیل کردیا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ آئی سی سی نے اپنے فیصلے میں اس وقت تبدیلی کی جب کچھ دن قبل یعنی 17 اکتوبر کو اسکاٹ لینڈ کی ٹیم سپر 16مرحلے کے میچ میں بنگلہ دیش کو شکست دے چکی تھی۔ آئی سی سی کی جانب سے فیصلے کی اس تبدیلی کی وجہ سے گروپ 1 زیادہ مضبوط جبکہ گروپ 2 غیر متوازن ہوگیا۔ بہرحال یہ ٹورنامنٹ مسلسل آگے بڑھتے ہوئے اپنے اختتامی مراحل کی جانب گامزن ہے۔

کل اس ٹورنامنٹ میں 2 میچ کھیلے گئے۔ پہلا میچ شارجہ کے مقام پر نیوزی لینڈ اور دنیائے کرکٹ میں نو وارد ٹیم نمیبیا کے درمیان کھیلا گیا۔ اس میچ میں حسبِ توقع نمیبیا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپنا پہلا ٹی20 ورلڈ کپ کھیلنے والی نمیبیا نے ہر میچ میں اپنی کارکردگی سے ناقدین کو متاثر کیا ہے۔ نمیبیا نے آئی سی سی ٹورنامنٹس کا تجربہ رکھنے والی ٹیموں نیدرلینڈ، آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کو شکست دینے کے علاوہ پاکستان اور نیوزی لینڈ جیسی خود سے بہت زیادہ مضبوط اور تجربہ کار ٹیموں کے بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے نہیں دیا اور اگر ان ٹیموں کے بلے باز آخری اوورز میں جارحانہ بلے بازی کرنے میں ناکام رہتے تو شاید یہ ٹیم کوئی اپ سیٹ بھی کردیتی۔

اگر نمیبیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے میچ کا تذکرہ کریں تو نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ابتدائی 16 اوورز میں صرف 96 رنز ہی بنائے تھے، لیکن آخری 4 اوورز میں جیمی نشام اور گلین فلپس نے ہنگامہ مچادیا اور محض 24 گیندوں پر 67 رنز کا اضافہ کردیا.

اسی طرح پاکستان کے خلاف بھی نمیبیا کے باؤلرز نے ابتدائی 16 اوورز میں اچھی باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور قومی ٹیم کو 127 رنز تک محدود رکھا لیکن پھر آخری 4 اوورز میں محمد رضوان اور محمد حفیظ کی پارٹنرشپ نے سب کچھ الٹ پلٹ کردیا اور 24 گیندوں پر 62 رنز کا اضافہ کرکے ہدف کو 189 رنز تک پہنچا دیا.

ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ نمیبیا کے پاس اچھے کھیلنے والے کھلاڑی تو موجود ہیں بس تجربے کی کمی کی وجہ سے وہ اچھا فنش نہیں کرسکے.

پھر پاکستان کے خلاف تو ان کے بلے بازوں نے بھی اپنے جوہر دکھائے تھے۔ نیوزی لینڈ نے 52 رنز سے میچ جیت کر سیمی فائنل کے مضبوط امیدواروں میں اپنا نام تو درج کروالیا ہے لیکن ٹورنامنٹ کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے افغانستان ان کی راہ میں ایک چٹان کی طرح حائل ہے۔

نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ کے خلاف نیوزی لینڈ کی کارکردگی دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر آگے جانے کے بجائے زیادہ پوائنٹس حاصل کرکے سیمی فائنل تک جانا چاہتے ہیں۔

ٹورنامنٹ کا شیڈول کچھ اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو صرف 5 دن میں 3 میچ دوپہر کو کھیلنے پڑیں گے۔ شاید دوپہر کے میچوں کی وجہ سے نیوزی لینڈ نے اسکاٹ لینڈ اور نمیبیا کے خلاف ضرورت سے زیادہ محنت کرنے سے خود کو باز رکھا۔ نیوزی لینڈ کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں ان کے مستقبل کا فیصلہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

ان کو سیمی فائنل میں رسائی کے لیے اتوار کو کھیلے جانے والے میچ میں بغیر کسی رن ریٹ کے دباؤ کے افغانستان کو شکست دینی ہے۔ اس میچ میں افغانستان کی ٹیم کو اگر مجیب الرحمٰن کی خدمات حاصل ہوگئی تو نیوزی لینڈ کے لیے جیت کا حصول مشکل بھی ہوسکتا ہے۔

بھارتی اسپنر روی چندر ایشون نے اسکاٹ لینڈ کے خلاف میچ سے قبل ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران افغان ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ازراہ مذاق یہ بھی کہا کہ کاش بھارت مجیب کو فٹ کرنے کے لیے ڈاکٹر فراہم کرسکتا۔ پریس کانفرنس میں موجود صحافی بھلے ہی اس بات کو ہلکا پھلکا مذاق تصور کرتے ہوں لیکن کرکٹ کا ایک عام شائق جانتا ہے کہ یہ مذاق نہیں بلکہ ایشون کے دل کی آواز ہے۔

ٹورنامنٹ کا 37واں میچ اسکاٹ لینڈ اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا۔ اس میچ میں حسبِ توقع بھارت نے یکطرفہ مقابلے میں اسکاٹ لینڈ کو باآسانی 8 وکٹوں سے شکست دے کر سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدوں کو زندہ رکھا ہے۔

اپنے 2 ابتدائی میچ ہار کر بھارتی ٹیم نے بقیہ دونوں میچ شاندار انداز میں جیتے ہیں۔ یعنی رن ریٹ کو بڑھانے کے لیے جس بڑے مارجن سے جیت کی ضرورت تھی، بھارتی ٹیم نے وہ حاصل کرلیا۔ مثال کے طور پر افغانستان کے خلاف بھارت کو کم از کم 60 رنز سے جیت درکار تھی تو اس میچ میں 66 رنز سے کامیابی ملی۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ کے خلاف ہدف کا تعاقب 7.1 اوور میں کرنا تھا مگر یہ کام 6.3 اوورز میں ہی ہوگیا.

ایسا لگ رہا ہے کہ بھارتی ٹیم نے اپنی کھوئی ہوئی فارم دوبارہ حاصل کرلی ہے اور یہ ٹیم اگر کسی طرح سیمی فائنل میں پہنچ جاتی ہے تو پھر اس کو فائنل کھیلنے اور جیتنے سے روکنا بہت مشکل ہوگا۔

2007ء میں جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے پہلے ٹی20 ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں بھی بھارت کو اسی نوعیت کی اگر مگر کی صورتحال کا سامنا تھا لیکن جب یہ ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی تو پھر اس کو عالمی کپ کا تاج سر پر سجانے سے کوئی نہیں روک سکا۔

Read Comments