بجٹ چیکنگ

![tab بجٹ تقریر] #بجٹ تقریر وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مالی سال 24-2023 کے لیے 145 کھرب روپے کا بجٹ پیش کر دیا،...

بجٹ تقریر


وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مالی سال 24-2023 کے لیے 145 کھرب روپے کا بجٹ پیش کر دیا، جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 1150 روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی ہے۔

اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بجٹ پیش کیا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر خدا کا شکر گزار ہوں، مالی سال 24-2023 کے بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرنے سے پہلے 2017 میں نواز شریف کی حکومت اور 2022 میں پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کے بجٹ کا تقابلی جائزہ پیش کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 17-2016 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی، مہنگائی 4 فیصد تھی، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2 فیصد تھی، پالیسی ریٹ ساڑھے 5 فیصد، اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔


بجٹ کے اہم نکات


وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020 تک جی-20 ممالک میں شامل ہونے والا تھا، پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر تھے، بجلی کے نئے منصوبوں سے 12-16 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل چکی تھی، انفرااسٹرکچر، روزگار کے مواقع اور آسان قرضوں جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاچکا تھا، ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام تھا، ان حالات میں آناً فاناً سازشوں کے جال بچھا دیے گئے، اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47ویں نمبر پر آگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے، خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے، اس لیے مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ ایوان کے سامنے رکھوں گا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے 2 صوبائی وزارئے خزانہ کو فون کر کے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کروانے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ تھا، مالی سال 22-2021 کا خسارہ جی ڈی پی کے 7.89 فیصد کے برابر ہے جبکہ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کا قرضہ تقریباً 250 کھرب تھا، پی ٹی آئی کی معاشی بے انتظامی کے سبب یہ قرض مالی سال 22-2021 میں 490 کھرب تک پہنچ گیا، 4 سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک لیے جانے والے قرض کا 96 فیصد تھا۔

اسحٰق ڈار نے بتایا کہ اسی طرح قرضے اور واجبات اسی عرصے میں 100 فیصد سے بڑھ کر 300 کھرب سے 600 کھرب روپے تک پہنچ گئے، جون 2018 میں غیر ملکی قرضے اور واجبات 95 ارب ڈالر تھے جو کہ جون 2022 تک 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو 208 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور میں یہ 1319 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا۔

Title of the document

ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا اور اخراجات میں کمی گئی، ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.0 فیصد ہوگیا، بنیادی خسارے کو صرف ایک سال کی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 3.1 فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کے سبب معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے ’ایف اے او‘ کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے برعکس سال 2022 کے دوران عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا، تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنا پڑی جو مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا، یوکرین جنگ، عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافے نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گرواٹ کو کم کیا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ قبل بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیے جانے والے کیش ٹرانسفر میں 25 فیصد تک اضافہ کردیا ہے، بجٹ کو 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا ہے، اس کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہوچکا ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مفت آٹے کی تقسیم کی گئی، سستی اشیا کی فراہمی کے لیے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، گزشتہ ایک ماہ میں حکومت نے 2 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کی، امید ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال اندرونی اور بیرونی مشکلات کے سبب بڑی صنعتوں کی پیداوار میں منفی نمو کا رجحان رہا، اس کی بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان تھا، جس کے سبب خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل سی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، حکومت اگلے مالی سال اس رجحان کو ریورس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح عالمی منڈیوں می قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں انوینٹری میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اب میں آپ کو بجٹ مالی سال 24-2023 کی عمومی سمت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا ہے جو کہ ایک مناسب ہدف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی ملک عام انتخابات کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مال سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کے بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بھرپور مشاورت کے بعد خاص طور پر معیشت کے ان چیدہ نکات کو منتخب کیا ہے جن کی بدولت ملک کم سے کم مدت میں ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہوسکتا ہے، بجٹ تجاویز میں ہمارے ترجیحی ’ڈرائیورز آف گروتھ‘ مندرجہ ذیل ہیں۔

ایس ایم ایز کی نشوونما کے لیے درج ذیل اقدامات کیے گئے ہیں۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی

زرمبادلہ کی باقاعدہ چینلز کے ذریعے اضافے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں

تعلیم

تعلیم کے شعبے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ویمن امپاورمنٹ

بجٹ میں ویمن امپاورمنٹ کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے۔

نوجوانوں کے کاروبار

تعمیری شعبے کی حوصلہ افزائی

تعمیری شعبہ معاشی پیداوار میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، نئے گھروں اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کے لیے آئندہ تین سال تک کنسٹرکشن انٹرپرائز کی کاروباری آمدن پر ٹیکس میں 10 فیصد یا 50 لاکھ روپے دونوں میں سے جو رقم کم ہو، رعایت دی جائے گی۔

وہ افراد جو اپنی ذاتی تعمیرات کروائیں، انہیں تین سال تک 10 فیصد ٹیکس کریڈٹ یا 10 لاکھ روپے جو رقم بھی کم ہو رعایت دینے تجویز ہے، اس رعایت کا اطلاق یکم جولائی 2023 اور اس کے بعد سے شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔

پسے ہوئے طبقات کے لیے بجٹ کے اہم نکات

شعبہ توانائی

اس شعبے کے لیے درج ذیل اقدمات کیے جا رہے ہیں۔

توانائی

وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کی پیدوارا، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کے لیے 107 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے، موجودہ حالات میں لازمی ہے کہ بجلی کی پیداوار میں ملکی وسائل اور قابل تجدید توانائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ ملکی درآمدات کو کم کیا جاسکے اور بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں کوئلے سے چلنے والے جامشورو پاور پلانٹ کی تکمیل کے لیے اگلے مالی سال میں 12 سو ارب روپے کی رقم فراہم کی جائے گی، اس کے علاوہ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

آبی وسائل

اسحٰق ڈار نے کہا کہ گزشتہ برس مہمند ڈیم کی تکمیل کے لیے 12 ارب روپے رکھے گئے، اگلے مالی سال میں بھی اس منصوبے کے لیے 10 ارب 50 کروڑ کی رقم رکھی گئی ہے، اسی طرح داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر تقریباً 59 ارب روپے کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 20 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، دیگر اہم منصوبوں میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے 4 ارب 80 کروڑ، تربیلا ہائیڈرو پاور کی استعداد میں اضافے کے لیے 4 ارب 45 کروڑ روپے اور وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن کی بحالی کے لیے 2 ارب 60 کروڑ کی رقم مختص کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں پینے کی پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے کے 4 اسکیم کے لیے بھی 17 ارب 50 کروڑ کی رقم مختص کی جائے گی۔

ٹرانسپورٹ اور مواصلات

شاہراہوں اور دیگر موصلات سہولیات کی ترقی کے لیے بجٹ میں 161 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

سوشل سیکٹر

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان پائیدار ترقی کے اہداف کا حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اگلے مالی سال میں اس مقصد کے لیے 90 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سال کی ٹیکس پالیسی کے اصول مندرجہ ذیل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا اور حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے اور روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ زیادہ تر معاشی سرگرمیاں اشیا کی سپلائی، کانٹریکٹس پر عملدرآمد، سروسز کی فراہمی سے متعلق ہوتی ہیں، ان ٹرانزیکشنز نے حکومت کو ہونے والی آمدن میں اضافے کے لیے ایک فیصد ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے اور اس کا اطلاق افراد اور کمپنیوں پر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جن سروسز پر رعایتی ٹیکس عائد ہوتا ہے ان کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ اس تجویز کا اطلاق چاول، کپاس کے بیج، خورونی تیل، پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا اور اسپورٹس پرسنس پر نہیں ہوگا۔

سیکشن 4 سی کے تحت سپر ٹیکس کے ریٹس اور اسکوپ کو ریشنلائز کرنا

وزیر خزانہ نے کہا کہ امیروں پر ٹیکس عائد کرنا پاکستان کی ٹیکسیشن پالیسی کا رہنما اصول ہے، سپر ٹیکس کو ترقی پسند ٹیکسیشن میں تبدیل کرنے کی تجویز ہے۔

کمرشل درآمدات پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح

کمرشل درآمدات اشیا کی درآمد کے وقت کم از کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں صنعتیں اپنے منافع پر ٹیکس ادا کرتی ہیں، اس لیے سامان کی درآمد پر تجارتی درآمد کنندگان کو ہونے والی آمدن پر کم از کم ٹیکس کے ریٹس کو معقول کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان اشیا کے استعمال اور منافع پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا، اس لیے تجارتی درآمد کنندگان کی طرف سے اشیا کی درآمد پر ٹیکس ریٹ میں 0.50 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔

کمپنیوں کی طرف سے جارہ کردہ بونس شیئرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس

انہوں نے کہا کہ کچھ کمپنیاں ٹیکس سے بچنے کے لیے کیش ڈویڈینڈ تقسیم کرنے کے بجائے بونس شیئر جاری کرتی ہیں، اس لیے ڈویڈینڈ پر ٹیکس اکٹھا کرنے کی غرض سے درج کی گئی اور غیر لسٹڈ کمپنیوں پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔

غیر ملکی گھریلو ملازم رکھنے پر ودہولڈنگ ٹیکس

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس وقت کم و بیش 3 ہزار غیر ملکی شہری پاکستان کے امیر گھرانوں میں مددگار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، اوسطاً ہر گھریلو مددگار کو سالانہ 6 ہزار ڈالر تنخواہ ادا کی جاتی ہے، گھریلو ملازمین کو ادا کی جانے والی رقم پر سالانہ ٹیکس 2 لاکھ روپے کی شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔

غیر ملکی کرنسی کے اخراج کی حوصلہ شکنی

انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو نہ صرف بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں اس میں کمی لانے والی خامیوں کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے اس لیے ڈیبٹ کارڈز، کریڈٹ اور بینکنگ چینلز کے ذریعے غیر ملکی کرنسی کے اخراج کی حوصلہ شکنی کرنے لیے فائلر پر ودہولڈنگ ٹیکس کی موجودہ شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کی جارہی ہے جبکہ نان فائلر پر یہ شرح 10 فیصد ہوگی۔

فیڈرل ایکسائز سیلز ٹیکس

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کے ریٹیلرز پر جی ایس ٹی کی موجودہ شرح 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی جا رہی ہے، بنیادی طور پر یہ ٹیکس برانڈڈ ٹیکسٹائل اور چمڑے کے قیمتی ملبوسات اور مصنوعات پر لیا جائے گا، یہ ٹیکس معاشرے کے اس طبقے پر عائد کیا جارہا ہے جو ایسی قیمتی اشیا خریدنے کا متحمل ہے، اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کی جائے اور پاکستان میں ایک یکساں اور ہم آہنگ ٹیکس کا نظام رائج ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئین میں کی جانے والی 25 ویں ترمیم کے نتیجے میں فاٹا اور پاٹا کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا تھا، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس آئینی تبدیلی کو مؤثر طور پر عملی جامہ پہنائے، ان علاقوں کے لوگوں پر 5 سال کے لیے ٹیکسوں سے استثنیٰ دیا گیا تھا اور یہ مدت 30 جون 2023 کو ختم ہو رہی ہے جس میں مزید ایک سال کی توسیع کی جارہی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پرانی اور استعمال شدہ 1800 سی سی تک کی ایشین میک گاڑیوں کی درآمد پر 2005 میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو روکا گیا تھا، اب 1300 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں کے ڈیوٹی اور ٹیکسز پر کیپنگ ختم کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گلاس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کی ڈیمانڈ پر مقامی گلاس کو پروٹیکٹ کرنے کے لیے ایسے گلاس کی مختلف اقسام کی درآمد پر 15 فیصد سے لے کر 30 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اسلام آباد کے وفاقی علاقے میں ڈیجیٹل ادائیگی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ریسٹورنٹ سروسز پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کی جارہی ہے۔

سرکاری ملازمین، پینشنرز، فکسڈ انکم افراد وغیرہ کے لیے ریلیف اقدامات

انہوں نے کہا کہ حکومت کو سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے، افراط زر کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح سرکاری ملازمین کی قوت خرید میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ شدید مالی مسائل اور وسائل کی کمی کی کے باوجود سرکاری ملازمین کے لیے ریلیف اقدامات کیے جارہے ہیں۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس سے پہلے کہ میں اپنی بجٹ تقریر کا اختتام کروں، میں اس امر کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے غیور اور روشن خیال عوام اس حقیقت سے پوری طرح روشناس ہو چکے ہیں کہ ان کا اصل دوست اور خیر خواہ کون ہے اور ملک و قوم کا دشمن اور معاشی بدحالی کا ذمہ دار کون ہے، میاں محمد شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اور اب بطور وزیراعظم پاکستان بھرپور طریقے سے خلوص نیت کے ساتھ عوامی کی خدمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ مخلوط حکومت نے چودہ ماہ کے قلیل عرصے میں شدید مالی مشکلات اور سازشیوں کے باوجود عوام دوست اقدمات اٹھائے ہیں اور ملک کو صحیح معنوں میں دیوالیہ ہونے سے بچاکر، بحران سے نکال کر استحکام کی راہ پر لے آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے ماضی میں بھی ملک کو مشکلات سے نکالا اور اب بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 14 ماہ میں پاکستان نے غیر معمولی معاشی چیلنجز کا سامنا کیا لیکن میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اگر ہم سب اللہ کے بھروسے اور خلوص نیت کے ساتھ اس ملک کی بہتری کے لیے کاوش کریں تو یہ دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام جلدی حاصل کرلے گا اور اقوام عالم میں اپنا نام روشن کرے گا۔


زراعت


زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اگلے مالی سال میں اس شعبے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی تجاویز ہیں:

انفارمیشن ٹیکنالوجی



![tab ترقیاتی منصوبے]


#

ترقیاتی منصوبے


وزیر خزانہ نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ ملک کی ترقی و تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے، ترقیاتی بجٹ کے ذریعے معیشت کی استعداد کار میں اضافہ، بہتر انفرااسٹرکچر کی فراہمی، افرادی قوت اور سرمایہ کاری میں اضافے جیسے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1150 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 15 سو 59 ارب روپے ہے۔

![tab صنعتی و برآمدی شعبہ]


#

صنعتی و برآمدی شعبہ


برآمدات کی ترویج کے لیے درج ذیل اقدمات کیے جا رہے ہیں۔