نقطہ نظر

کریئر سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی ’ڈاکٹر بہو‘ افرادی قوت کا دوبارہ حصہ کیسے بنے؟

500 طلبہ پر مشتمل ایم بی بی ایس کے ایک بیچ میں تقریباً 70 فیصد طالبات ہوتی ہیں جبکہ ان میں سے ایک تہائی خواتین میڈیکل کی پریکٹس ہی نہیں کرتیں جوکہ صحت کے بحران کا اہم محرک ہے۔

ڈاکٹر عدیہ احمد کا تعلق ڈاکٹرز کے خاندان سے ہے۔ 2011ء میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے ایم بی بی ایس کی 5 سالہ ڈگری مکمل کرنے کے بعد انہوں نے مقامی اسپتال میں ہاؤس جاب کا آغاز کیا۔

دو سال بعد ان کی شادی ہوگئی اور جیسا کہ ہمارے ملک میں خواتین میڈیکل گریجویٹس کی بڑی تعداد کے ساتھ ہوتا ہے، ڈاکٹر عدیہ نے بھی ’فیملی پر توجہ مرکوز‘ کرنے کے لیے اپنے کریئر سے وقفہ لے لیا۔

زیادہ تر لوگوں کے لیے اس نوعیت کے ’وقفے‘ طویل عرصے تک چلتے ہیں جس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے خاندانی پابندیاں، روایتی صنفی کرداروں کے حوالے سے سماجی توقعات اور صحت کے شعبے میں درپیش چیلنجز (مثلاً مساوی تنخواہ کے بغیر طویل گھنٹوں تک کام) لیکن کچھ معاملات میں کام سے دوری ان کا ذاتی انتخاب ہوتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر عدیہ کے معاملے میں ہم نے دیکھا۔

پاکستان کے ادارہ اعداد و شمار کے 2021ء کے لیبر فورس سروے پر مبنی گیلپ پاکستان اور اسلام آباد میں قائم ادارے پرائیڈ کنسلٹینسی کی مشترکہ تحقیق میں سامنے آیا تھا کہ اس وقت ملک میں ایک لاکھ 4 ہزار 974 خواتین میڈیکل گریجویٹس میں سے 35 فیصد بےروزگار تھیں یا انہوں نے افرادی قوت کا حصہ نہ بننے کا انتخاب کیا۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی پرو وائس چانسلر پروفیسر جہاں آرا حسن ان نتائج کا ذکر کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ 500 طلبہ پر مشتمل ایم بی بی ایس کے بیچ میں تقریباً 70 فیصد طالبات ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’ان طالبات میں سے ایک تہائی خواتین میڈیکل کی پریکٹس نہیں کرتی ہیں‘۔

کم از کم ایک تہائی میڈیکل طلبہ (لڑکے اور لڑکیاں) بیرونِ ملک میڈیکل پریکٹس کرنے کے متمنی ہوتے ہیں جو پاکستان میں صحت کے بحران کا اہم محرک ہے۔ 2013ء میں دی لانسیٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق 18ویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کے صحت کے نظام میں کارکردگی اور امکانات کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر کے لیے ایک ہزار 524 مریضوں کا تناسب دیکھنے میں آیا جوکہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے تجویز کردہ ایک ڈاکٹر کے مقابلے میں ایک ہزار مریضوں کے تناسب سے کئی زیادہ ہے۔

ٹیلی میڈیسن کی صلاحیت

ڈاکٹر عدیہ کا شمار اب ان ایک ہزار 500 خواتین ڈاکٹرز میں ہوتا ہے جنہوں نے دوبارہ میڈیکل پریکٹس کا آغاز کیا ہے۔ ان ڈاکٹرز نے ایجوکاسٹ کے ’ای ڈاکٹرز‘ پروجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر دوبارہ اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ ایجوکاسٹ کراچی میں قائم ایک سماجی ادارہ ہے جو 2016ء میں ایک ورچوئل ایجوکیشن پلیٹ فارم کے طور پر فعال ہوا لیکن پھر اس نے ڈیجیٹل صحت اور تربیت کے شعبے میں وسعت دی۔

ایجوکاسٹ کے بانی اور چیئرمین عبداللہ بٹ کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کا مقصد ان خواتین کو افرادی قوت میں واپس لانا تھا جنہوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی یا جنہیں ’ڈاکٹر بہو‘ کہا جاتا ہے۔

ایجوکاسٹ نے ڈاؤ یونیورسٹی کی مدد سے 2018ء میں ای ڈاکٹرز پروگرام شروع کیا جس میں ایک درخواست گزار ڈاکٹر عدیہ بھی تھیں۔ عبداللہ بٹ کہتے ہیں، ’ہمیں 15 سے 20 کی توقع تھی لیکن ہمیں 350 درخواستیں موصول ہوئیں۔

انہوں نے 280 درخواست گزاروں کا انتخاب کیا جنہیں 6 ماہ کا سخت مگر لچکدار آن لائن ریفریشر کورس کرنا پڑا۔ یہ کورس ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی مدد سے ترتیب دیا گیا تھا جس کے بعد درخواست گزار ایک امتحان میں بیٹھے۔

یہ ڈاکٹر عدیہ کے لیے انتہائی اچھا اقدام ثابت ہوا کیونکہ وہ کورس لیتے ہوئے اپنے چھوٹے بچے کی بھی نگہدشت کرسکتی تھیں۔ کورس کی آن لائن سہولت نے ڈاکٹر فائزہ ایوب کی بھی میڈیکل کے شعبے میں واپسی میں مدد کی جنہوں نے 2000ء میں گریجویشن کیا تھا اور اب وہ 4 بچوں سمیت مشرقِ وسطیٰ میں مقیم ہیں۔

دونوں خواتین کا کہنا تھا کہ انہوں نے صحت کے شعبے میں ہونے والی پیش رفت سے خود کو آگاہ رکھا جس سے انہیں واپسی کا موقع ملا۔ ڈان کو دیے گئے فون انٹرویوز میں دونوں نے بتایا کہ فیملی کی سپورٹ سے بھی انہیں کافی مدد ملی۔

لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔

عبداللہ بٹ جو عمر میں 60 کا ہندسہ عبور کرچکے ہیں، نشاندہی کی کہ درخواست دہندگان میں 1980ء کی دہائی میں گریجویٹ ہونے والے افراد سے لے کر وہ لوگ شامل تھے جو محض چند سال پہلے ہی پاس آؤٹ ہوئے تھے۔ انہوں نے ڈان کو بتایا، ’کچھ درخواست دہندگان میں ڈیجیٹل معلومات کی کمی تھی جو آن لائن سیشنز میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہیں‘۔

کلینکل تجربہ نہ ہونا بھی ایک مسئلہ تھا۔ کامیاب امیدواروں کو کلینک کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ بیرونِ ملک مقیم امیدوار ڈاکٹرز نے پاکستان کا دورہ کیا تو ایجوکاسٹ نے ’شیڈونگ سیشنز‘ کا اہتمام کیا۔ ان سیشنز میں وہ ڈاکٹر جو فی الحال کام نہیں کر رہے تھے، ایک پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر کو دیکھا، سوالات کیے اور یہ سیکھا کہ مریضوں کے ساتھ حقیقی حالات میں کیسے نمٹنا ہے۔

عبداللہ بٹ بتاتے ہیں کہ یہ مشکل تھا لیکن پھر ان کی کوششوں کا ثمر ملنے لگا۔ ان کے گریجویٹس نے طبی خدمات فراہم کرنا شروع کردیں۔

لیکن پھر کورونا کا دور آگیا۔

کووڈ 19 کے اثرات

جیسے ہی دنیا خوفناک وائرس کے ڈر سے لاک ڈاؤن میں چلی گئی تو ایسے میں طبی معاونت کی طلب میں بھی ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

2020ء میں ایجوکاسٹ کی ٹیم نے سندھ حکومت کے لیے رضاکارانہ خدمات پیش کیں اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے ڈیزائن کردہ کووڈ 19 کے مخصوص کورس کی 450 خواتین ڈاکٹرز کو تربیت دی۔ عبداللہ بٹ بتاتے ہیں، ’اگلے دو سال تک میڈیکل کے شعبے میں دوبارہ قدم رکھنے والی ان خواتین ڈاکٹرز نے اپنے گھروں سے بیٹھ کر کورونا کے مریضوں کا علاج اور ان کا معائنہ کیا۔ اس رضاکارانہ خدمت سے 5 لاکھ مریض مستفید ہوئے‘۔

عبداللہ بٹ کہتے ہیں کہ زیادہ تر ڈاکٹرز کو معمولی معاوضہ دیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’ہفتے میں 4 دن، 4 گھنٹے جز وقتی کام کرنے والی خواتین کو ہم کم از کم 30 ہزار روپے معاوضہ دیتے ہیں‘۔ وہ خواتین جو زیادہ وقت لگاتی ہیں انہیں معاوضہ بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔

تاہم ان میں سے کچھ رضاکارانہ طور پر بھی اپنی خدمات پیش کرتی ہیں۔

ڈاکٹر عدیہ کہتی ہیں، ’میں نے میڈیکل کی پڑھائی کی کیونکہ میں لوگوں کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ اپنے مریضوں سے مجھے جو دعائیں ملتی ہیں، وہ میرے لیے کافی ہیں‘۔

ٹیلی ہیلتھ میں سرمایہ کاری اور میڈیکل پریکٹیشنرز کے ایک گروپ کو تیار کرنے کا ثمر عبداللہ بٹ کو مل چکا ہے۔

’پروجیکٹ بڑھتا جارہا ہے‘

2020ء میں ہی اسلامی ترقیاتی بینک کے زیرِ اہتمام ایک مقابلے میں 5 ہزار پروجیکٹس میں ای ڈاکٹرز کا پروجیکٹ بھی شامل تھا۔ یوں ایجوکاسٹ کو اپنی خدمات کو وسعت دینے کا موقع ملا جس میں گھر بیٹھے طبی مشاورت سے لے کر تشخیص کے لیے تیز ترین ٹیسٹ شامل ہیں جبکہ انہوں نے اسپارٹ فونز پر آن لائن کلینکس تک رسائی کو آسان بنایا۔ اس بہتری میں ہیضہ اور کووڈ 19 کے ٹیسٹ سمیت 16 اقسام کے خون اور پیشاب کے ٹیسٹ شامل ہیں۔

عبداللہ بٹ نے انکشاف کیا کہ آج ان کے ایک ہزار 500 ڈاکٹرز دنیا کے 27 ممالک میں موجود ہیں جو 11 ممالک میں گھر بیٹھے طبی خدمات فراہم کررہے ہیں۔ ان ممالک میں صحت کے ناقص انفرااسٹرکچر والے یمن، سوڈان، صومالیہ، افغانستان، شام اور فلسطین جیسی حساس یا نازک ریاستوں میں مقامی تنظیموں کے ساتھ شراکت داری شامل ہے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا، ’یمن میں ہم 3 سال سے فعال ہیں جہاں ہم ڈاکٹرز اور پیرامیڈیک عملے کو تربیت دے رہے ہیں۔ دوردراز علاقوں پیرامیڈیکس کو مریضوں کی نگرانی اور ان کا بائیو میڈیکل ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ٹیلی میڈیسن کا سامان فراہم کیا جاتا ہے جو تشخیص اور علاج فراہم کرنے کے لیے بیرون ملک مقیم ماہرین کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے۔

عبداللہ بٹ مزید کہتے ہیں، ’ہم شاید دنیا کی واحد کمپنی ہیں جو ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت پر مبنی طبی پلیٹ فارمز اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے روبوٹک ٹولز استعمال کررہے ہیں‘۔

دیگر ممالک میں بھی اسلامی ترقیاتی بینک اور اسلامی تعاون تنظیم کی معاونت سے اسی طرح کے پروجیکٹس پر کام کیا جارہا ہے۔ ان تنظیموں نے افغانستان ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ان اداروں کی مدد سے ایجوکاسٹ نے گزشتہ سال 6 افغان صوبوں میں ایک پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز کیا۔ عبداللہ بٹ نے انکشاف کیا کہ منصوبے کے دوران ایک ہزار طبی مشورے فراہم کیے گئے جن سے 5 ہزار مریض مستفید ہوئے۔ ’ایجوکاسٹ نے ایک ہزار 500 مقامی صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پروفیشنل افراد کو بھی تربیت دی جبکہ 20 طبی تعلیم کی سہولیات کے قیام پر کام جاری ہے‘۔

نئے منصوبے، وہی عزائم

عبداللہ بٹ کا نیا منصوبہ زائد عمر لوگوں کو صحت کی دیکھ بھال پر مرکوز ہے جس کے لیے ان کی کمپنی نے مقامی یونیورسٹیز کے ساتھ شراکت قائم کی ہے جس کے تحت ان کے طلبہ کو لازمی کمیونٹی سروس سے بھی گزرنا ہوگا۔ شرکت کرنے والی یونیورسٹیز کے طلبہ کو اپنے خاندان کے بزرگوں کے ساتھ وقت گزارنا ہوگا۔

عبداللہ بٹ بتاتے ہیں کہ اس سے دونوں فریقین کو فائدہ ہوا کیونکہ طلبہ نے اپنے بزرگوں عموماً دادا، دادی یا نانا، نانی کے ساتھ وقت گزارا۔ وہ کہتے ہیں، ’نوجوانوں نے اپنے، خاندان کے حوالے سے نئی باتیں سیکھیں اور انہوں نے اپنے مستقبل کے لیے تیاری کی جبکہ بزرگ حوصلہ افزائی محسوس کرتے ہیں‘۔

بزرگوں کی دیکھ بھال کے منصوبے میں عبداللہ بٹ کے لیے حوصلہ افزا خیال یہی ہے جس نے ای ڈاکٹرز پروجیکٹ کو کامیاب بنایا یعنی ان لوگوں کی قدر اور صلاحیتوں کو پہچاننا جنہیں معاشرہ نظرانداز کررہا ہے یا وہ معاشرے کی دوڑ میں پیچھے رہ چکے ہیں۔

38 سالہ ڈاکٹر عدیہ کے لیے اس پروجیکٹ نے انہیں اپنے کریئر میں واپسی کا موقع فراہم کیا تاکہ وہ اپنے عزم میں کامیاب ہوسکیں بلکہ اس منصوبے کے ذریعے انہوں نے اپنا ہنر بھی نکھارا۔ گزشتہ سال انہوں نے فیملی میڈیسن میں ایم سی پی ایس (ایک پوسٹ گریجویٹ پروگرام جو پاکستان میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز نے پیش کیا تھا) مکمل کیا۔

وہ اپنے کریئر میں مزید کامیابیاں حاصل کرنا چاہتی ہیں جبکہ وہ پہلے ہی فیملی فزیشن کے طور پر کام کررہی ہیں جس کا یقینی طور پر کسی حد تک سہرا عبداللہ بٹ اور ایجوکاسٹ کو جاتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

حسین دادا

لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔