نقطہ نظر

محرم میں کربلا کی زیارت: ’ایران-اسرائیل جنگ نے زائرین کو مشکل میں ڈال دیا ہے‘

ایران اور اسرائیل کے درمیان اختلافات برقرار ہیں جس نے کربلا عراق میں محرم گزارنے کے خواہشمند پاکستانی زائرین کے سفری پروگرامز کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

61 سالہ سید باقر علی جعفری نے ایک دہائی تک طویل انتظار کیا۔ انہوں نے ارادہ کیا تھا کہ 2025ء میں وہ یہ کام کریں گے۔ ان کے چھوٹے بھائی کی اچانک موت نے انہیں مزید راغب کیا۔ ان کا ویزا آ چکا تھا اور بکنگ بھی مکمل ہوچکی تھی۔ لیکن پھر اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا۔

کراچی کے رہائشی باقر علی جعفری بہت سے دیگر لوگوں کی طرح محرم میں عراق کی زیارت پر روانہ ہونے والے تھے جس کا آغاز 27 جون سے ہوگا۔ یہ سفر دنیا بھر کی شیعہ برادری کے دلوں میں ایک اہم روحانی حیثیت رکھتا ہے۔ درحقیقت کربلا میں عاشورہ (10 محرم) اور اربعین (20 صفر) کو دنیا کا سب سے بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے۔

پاکستان سے زائرین کی اکثریت ایران سے کربلا کے لیے زمینی راستہ اختیار کرتی ہے جہاں مشہد اور قم جیسے اہم شیعہ مذہبی مقامات بھی ہیں۔ دیگر جہاز کے ذریعے جاتے ہیں۔ باقر جعفری کو بھی جہاز سے ہی کربلا جانا تھا۔

ان کی بھانجی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا، ’ان کی تمام تیاریاں مکمل تھیں اور صرف ٹکٹ بک ہونا باقی تھے۔ انہوں نے محرم کے پہلے دن جانے کا ارادہ کیا تھا۔ وہ اسے اپنے آخری سفر کے طور پر دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ بڑھاپے کی وجہ سے زیادہ سفر نہیں کرسکتے ہیں‘۔

بدقسمتی سے باقر جعفری کو جہاز کے ٹکٹ نہ مل سکے۔ گزشتہ ہفتے بڑی ایئر لائنز نے ایران، عراق اور شام کے لیے اپنی پروازیں غیر معینہ مدت کے لیے یا جون کے آخر تک معطل کردی تھیں۔

مندرجہ ذیل وہ ایئرلائنز ہیں جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے لیے اپنی پروازیں معطل کیں۔

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی کہ جب اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری و عسکری تنصیبات اور سویلین انفرااسٹرکچر پر وسیع پیمانے پر حملے کیے گئے جس میں اعلیٰ کمانڈرز، سائنسدانوں اور عام شہریوں کی شہادت ہوئی۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ یہ حملے تہران کے جوہری عزائم کو روکنے کے لیے ایک وسیع تر کارروائی کا حصہ ہیں جبکہ ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کی مسلسل تردید کی ہے۔ ایک دن بعد ایران نے سیکڑوں بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل پر جوابی کارروائی کی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ’صیہونی حکومت کو منہ توڑ جواب دینے کا آغاز‘ ہے۔

اس کے بعد سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جنگ اب آٹھویں روز میں داخل ہوچکی ہے۔ اگرچہ ایران اور اسرائیل کے درمیان اختلافات برقرار ہیں لیکن پاکستان میں زائرین خود کو ایک غیر یقینی صورت حال میں گھرا پاتے ہیں جہاں مقدس سرزمین کی زیارت کی ان کی امیدیں خطرے میں پڑ چکی ہیں۔

خوف، الجھن، بے یقینی

رضا زیدی نے اپنی والدہ اور خالہ کے ہمراہ نجف میں شیعہ مذہبی تہوار ’عید غدیر‘ منانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہتا تو وہ ہفتے تک اپنے پہلے سفر پر عراق پہنچ چکے ہوتے۔ ادائیگیاں، ویزا اور ہوٹل کی بکنگ سمیت تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی تھی۔

’لیکن جمعہ کی سہ پہر مجھے پتا چلا کہ ہماری ایئرلائن فلائی دبئی نے ایران، عراق، شام، اردن اور اسرائیل کی فضائی حدود میں چلنے والی تمام پروازیں منسوخ کر دی ہیں‘، انہوں نے بتایا۔’میری والدہ اور خالہ بہت مایوس ہیں کیونکہ عید غدیر وہ واحد موقع تھا جو انہوں نے کربلا میں نہیں منایا تھا اور وہ واقعی وہاں جانے کے منتظر تھے‘۔

رضا زیدی نے بتایا کہ فی الحال ابھی کچھ بھی واضح نہیں۔ لیکن خوف اور بے یقینی کے ماحول کے باوجود، انہوں نے ابھی تک اس ٹور کمپنی سے رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا ہے جس کے ساتھ انہیں سفر کرنا تھا۔ ’اگر پروازیں چل رہی ہیں تو ہم جلد از جلد جانا چاہتے ہیں۔ ہم کربلا اور نجف سے بہت زیادہ روحانی محرکات حاصل کرتے ہیں۔ اگر فضائی حدود بند نہ ہوتیں تو جنگ کے باوجود ہم وہاں جاتے‘۔

جہاں رضا زیدی کے سفری منصوبے براہ راست جنگ کی وجہ سے بےیقینی کا شکار ہیں وہیں موجودہ صورت حال نے عراق میں محرم گزارنے کے خواہشمند زائرین کے سفری پروگرامز کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو سڑک کے ذریعے سفر کررہے ہیں کیونکہ پاکستان نے پہلے ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم بدھ کی رات ایکس پر ایک پوسٹ میں دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا، ’یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ چند میڈیا رپورٹس کے برعکس، پاکستان اور ایران کے درمیان تمام سرحدی گزرگاہیں مکمل طور پر کھلی ہیں‘۔

الحرمین ٹریول ایجنسی کے ڈائریکٹر موسیٰ رضا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سڑک کے ذریعے سفر کرنے والوں کے لیے خطرہ زیادہ ہے کیونکہ انہیں عراق جانے کے لیے ایران میں کم از کم دو رات کے لیے قیام کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی کمپنی کو اس سال زمینی اور فضائی دونوں راستوں کے لیے ملک بھر سے بڑی ریکارڈ تعداد میں زیارت کی بکنگ موصول ہوئی ہے۔ ’وہ سب اب بےیقینی کا شکار ہیں۔۔۔ الجھن اور خوف کی زد میں ہیں‘۔

کراچی کی رہائشی ایک ٹیچر فاطمہ سہیل ایک سال سے عراق جانے کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔ موسم گرما کی تعطیلات میں محرم ہونے کی وجہ سے ان کے لیے کام سے 10 یا 12 دن کی چھٹی لینا آسان ہوگیا تھا۔

انہوں نے کہا، ’میں کچھ سال پہلے کربلا گئی تھی اور یہ ایک بہت اچھا تجربہ تھا۔۔۔ میں نے پھر واپس جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس بار میں محرم کے پہلے 10 دن وہاں گزارنا چاہتی تھی‘۔ بوہرہ برادری سے تعلق رکھنے والی فاطمہ کے سفر کا اہتمام فیض حسینی نے کیا تھا جوکہ حج، عمرہ یا زیارت کرنے والے کمیونٹیز کی سفری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔

لیکن حال ہی میں انہیں موجودہ صورت حال کے حوالے سے فیض حسینی کا ایک پیغام موصول ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ عراقی حکومت نے اگلے نوٹس تک ملک کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ’لہٰذا ہم ابھی انتظار کررہے ہیں کیونکہ فضائی حدود بند ہے لیکن امکان یہی ہے کہ سفر منسوخ ہوجائے گا‘، انہوں نے افسوس ناک لہجے میں کہا۔

جبکہ فاطمہ نے تسلیم کیا کہ حالات کسی کے قابو میں نہیں لیکن ان کی امید اب بھی زندہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’اگر یہ میری تقدیر میں لکھا ہوا ہے تو کچھ بھی ہوجائے یہ ہوکر رہے گا‘۔

کراچی کے ایک اور رہائشی دارا بیگ جو محرم کی تیسری اور چوتھی تاریخ کے درمیان عراق کے لیے روانہ ہونے والے تھے، بھی پریشان ہیں۔ موجودہ منظر نامے میں وہ شکوک و شبہات کا شکار ہے کہ آیا وہ یہ سفر کرپائیں گے یا نہیں۔

انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ’ہمیں جنگ کی کوئی پروا نہیں ہے۔۔۔ اگر فضائی حدود کھل جاتی ہیں تو ہم سب سے پہلے ہوائی اڈے پر پہنچیں گے۔ یہ زیارت کا عزم ہے کہ جب جان کا خوف ہو تب بھی جانے سے گریز نہیں کرو‘۔

ایران سے انخلا

دارا بیگ اور رضا زیدی دونوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے رشتہ دار جو یوم عرفہ کے موقع پر عراق میں موجود تھے، جنگ شروع ہونے کے بعد سے وہیں پھنس گئے۔

مصطفیٰ* جو اس تقریب کے لیے عراق گئے تھے، کربلا اور نجف میں پھنس جانے والے زائرین میں شامل تھے۔ انہیں 13 جون کو واپس آنا تھا لیکن اسی دن ایران-اسرائیل جنگ شروع ہوگئی۔ انہوں نے کہا، ’ہماری پروازیں منسوخ کردی گئیں اور فضائی حدود کو بعدازاں بند کردیا گیا‘۔

زیادہ تر لوگوں کے برعکس جو ٹور آپریٹرز کے ذریعے سفر کرتے ہیں، مصطفیٰ نے خود ہی سفر کا انتظام کیا تھا اور اس لیے ان کے پاس کچھ دنوں تک وہاں گزارا کرنے کے لیے نقد رقم تھی۔ انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو فون پر بتایا، ’جو لوگ ٹور گروپس کے ساتھ آئے ہیں ان کے پاس نقد رقم تیزی سے ختم ہورہی تھی۔۔۔ یہاں تک کہ کمپنیز کے بجٹ بھی ختم ہو رہے ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حال ہی میں بغداد کی قومی کمپنی عراق ایئرویز نے پاکستان کے لیے ہنگامی پروازوں کا آغاز کیا لیکن یہ پروازیں بصرہ ایئرپورٹ سے آپریٹ ہورہی ہیں جوکہ نجف اور کربلا سے 7 گھنٹے کی مسافت پر ہے جبکہ زیادہ تر زائرین نجف اور کربلا میں قیام پذیر تھے۔ اس کے علاوہ عراقی پالیسی کے مطابق پاکستانیوں کو آمد پر اپنے پاسپورٹ ایئرپورٹ پر جمع کروانا ہوتے ہیں جو بعد میں روانگی کے وقت واپس کردیے جاتے ہیں’۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پاسپورٹ کے اجرا کے لیے سفارت خانے سے رابطے میں ہیں لیکن اب تک ان سے خاطر خواہ مدد نہیں ملی ہے‘۔

مصطفیٰ نے خبردار کیا کہ زائرین کو نکالنے میں مزید تاخیر صورت حال کو مزید خراب کرسکتی ہے۔ ’لوگوں کے پاس ادویات، خوراک ختم ہورہی ہے اور ان کے پاس رہائش کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ حکومت کی جانب سے فوری طور پر کارروائی کی ضرورت ہے‘۔

وزارت خارجہ کے مطابق اس وقت تقریباً 5 ہزار پاکستانی زائرین ایران اور عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 16 جون کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ عراق ایئرویز بصرہ-دبئی راستے پر روزانہ پروازیں چلا رہی ہے۔ ’اس راستے سے سفر کرنے میں دلچسپی رکھنے والوں کو بکنگ اور مدد کے لیے قریبی عراقی ایئرویز کے دفتر سے رابطہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے‘۔

اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی سفارت خانہ انخلا میں مدد کررہا ہے اور عراقی حکام سے رابطے میں ہے۔ اس کے علاوہ وزارت خارجہ نے سفر کے خواہشمند افراد کو مشورہ دیا کہ وہ تہران اور بغداد کے اپنے سفری منصوبوں پر نظر ثانی کریں۔ گزشتہ چند دنوں میں ایک ہزار سے زائد زائرین اور طلبہ تفتان بارڈر کے راستے عراق اور ایران سے واپس آئے ہیں۔

اس کے علاوہ منگل کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) نے عراق میں پھنسے زائرین کو واپس لانے کے لیے اپنی پہلی امدادی پرواز چلائی۔ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ خان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ طیارے نے پشاور سے اڑان بھری اور ترکمانستان کے اشک آباد میں زائرین کو سوار کیا۔ انہیں ایران اور عراق سے سڑک کے ذریعے وہاں لایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ایران، عراق، اسرائیل، شام یا اردن کے لیے کوئی پرواز نہیں چلا سکتے کیونکہ پورے خطے کو ہی جنگی علاقہ قرار دے دیا گیا ہے‘۔

عبداللہ خان نے کہا کہ منگل کی پرواز سے 150 سے زائد مسافروں کو واپس لایا گیا جن کی فہرست پاکستانی سفارت خانے نے پی آئی اے کو فراہم کی تھی جسے ’منشور‘ دستاویز بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی آئی اے انخلا کے حوالے سے وزارت خارجہ سے قریبی رابطے میں ہے۔

وطن واپسی کا سفر

محمد علی رضا ان ایک ہزار زائرین اور طلبہ میں شامل تھے جو اس ہفتے کے آغاز میں تفتان بارڈر کے راستے پاکستان واپس آئے۔ وہ 2019ء سے تہران میں تھے جہاں وہ معاشیات میں پی ایچ ڈی مکمل کر رہے تھے۔ جمعہ کو جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو وہ اپنے ہاسٹل میں تھے جہاں انہوں نے بموں کی آواز سنی جو ہاسٹل کی کھڑکی کے بالکل باہر گرا تھا۔

علی نے بتایا، ’رات 7 سے صبح 5 بجے تک بمباری کا سلسلہ جاری رہا‘۔

علی نے ایران کی جوابی کارروائی کے بعد کے دنوں کو اپنی زندگی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ وقت قرار دیا۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ کس طرح ان کے پروفیسرز اور ساتھی اسرائیلی حملوں میں زخمی ہوئے۔ انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا، ’ابتدائی طور پر ہم نے سوچا کہ معاملہ ختم ہوجائے گا لیکن پیر تک یہ واضح ہوگیا تھا کہ مکمل جنگ چھڑ چکی ہے‘۔

تب وہ اور ان کے دوستوں نے تہران میں پاکستانی سفارت خانے جانے کا فیصلہ کیا۔ ’ہمیں مثبت جواب ملا اور اتوار (15 جون) کو ان کی طرف سے حکم ملنے پر میں بس کے ذریعے تفتان کے لیے روانہ ہوا۔۔۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ دن تھا کہ جب میں اپنی زندگی کے لیے سب سے زیادہ خوفزدہ تھا کیونکہ اسرائیل نے عوامی مقامات، ہاسٹلز اور پارکس کو نشانہ بنایا تھا۔

’ہمارے پاس جانے کے لیے صرف ڈیڑھ گھنٹہ تھا کیونکہ اس کے بعد کوئی سڑک ایسی نہیں تھی جو ہڑتالوں کی وجہ سے بند نہ ہوئی ہو‘۔

اگلے 24 گھنٹوں تک علی زاہدان کے راستے پر تھے جہاں سے انہیں پاکستانی سرحد عبور کرنا تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم منگل کو تفتان پہنچے جہاں سرحدی حکام نے ہمیں چائے کے ساتھ دوپہر کے کھانے میں چکن بریانی پیش کی۔

پی ایچ ڈی کے طالب علم نے مزید کہا، ’اب ہم یہاں سے پنجاب میں اپنے گھر چلے جائیں گے‘۔

علی نے مزید بتایا کہ ان کے زیادہ تر پاکستانی ہم جماعتوں کو تہران سے بحفاظلت نکال لیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں وہ اپنے گھر واپس آنے پر خوش تھے وہیں وہ جنگ کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ وہ اپنے دوسرے گھر واپس جا سکیں۔


*رازداری کی غرض سے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

مظہرہ امین

لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔