افواہیں اور تردید: ایک مشہور ظہرانے نے حکومت کو کیسے غیرمتعلقہ بنا دیا؟
سات سمندر پار واشنگٹن ڈی سی میں ایک اہم ظہرانے کے بعد سے پاکستان کی سیاست اتنی گہری نیند سو چکی ہے کہ اس کے خراٹوں کی آواز پورے ملک میں سنی جاسکتی ہے۔
اب جب امریکیوں نے بھی آرمی چیف کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کرکے مہر ثبت کردی ہے کہ اقتدار کس کے ہاتھ میں ہے تو اب گمان ہوتا ہے کہ مرکزی دھارے کی اہم سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ پنڈی کی برتری کو تسلیم کرلیا جائے اور ہنسی خوشی وقت گزارا جائے۔
یہ ارینج میرجز کی طرح ہے کہ جس میں یہ مفروضہ غالب آجاتا ہے کہ دکھاوے کے لیے ہنستے بستے جوڑے کا کردار ادا کرنا اور خاندانی زندگی میں پھنس جانا ہی ایسی زندگی ہے کہ جس کی سب کو خواہش ہوتی ہے۔
جب تک آپ کے پاس گھر ہے، اچھی آمدنی، بچے اور سماجی زندگی ہے، تو آپ ہنسی خوشی رہنے کا دکھاوا کرسکتے ہیں۔ یہی ہماری سیاسی جماعتوں کی حالت ہے، تاہم ان کے لیے یہ ضروریات ’گورمنٹ‘ کے گھر، سبز نمبر پلیٹس اور وی آئی پی پروٹوکول ہیں۔ تو بھلا انہیں کیا پروا کہ اصل اقتدار اور ملکی خزانہ کس کے پاس ہے؟ گھر اور گاڑیاں مفت ہیں جبکہ انہیں عدالتی پیشیاں بھی بھگتنا نہیں پڑتیں۔
چلیے زندگی میں موجود ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ہی خوش ہو لیتے ہیں۔ جیسا کہ مشہورِ زمانہ گانا ہے، ’دل ہے چھوٹا سا، چھوٹی سی آشا‘۔
اگر کسی کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والے ظہرانے پر کوئی تشویش بھی ہے کہ وزیر اعظم کہاں تھے تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ ہائبرڈ نظام کی خوبیوں کی تعریف کریں۔ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ آپس میں کوئی لڑائی نہیں محض زیادہ تعاون ہے تو دل اس سے زیادہ کی کیوں چاہ کرے گا۔
اور اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے فوجی کنٹرول کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی زندگی ضائع کی، تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ سوچ رہے ہیں۔ آخر کوئی بھی بھلا ایک ظہرانے یا ہائبرڈ نظام کی عظمت سے متعلق تجزیات سے اتنا بڑا نتیجہ کیسے اخذ کرسکتا ہے۔
لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب ایک صفحے پر ہیں۔ وہ تو کام کرنے میں مصروف ہیں اور کبھی کبھی وہ تصاویر بھی بنوا لیتے ہیں۔ تاہم کچھ ایسے لمحات ضرور ہوتے ہوں گے کہ جب وزیر اعظم خود کو تھپکی دیتے ہوں کہ ان کے خاندان کی رکن پنجاب کے معاملات سنبھال رہی ہیں جنہیں بہت زیادہ تنقید اور توجہ مل رہی ہے۔ اگرچہ وفاق انہی کے ہاتھ میں ہے لیکن ان پر زیادہ الزامات نہیں لگائے جاتے اور ایسا اس لیے ہے کیونکہ زیادہ اہم لوگ لاہور یا اس سے قریب موجود ہیں۔
اس کے باوجود گزشتہ ہفتے میں کچھ ایسے لمحات آئے ہیں جنہوں نے اشارہ دیا کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن عام پاکستانی معنوں میں بہت کم چیزیں ہی منطق کے مطابق ہوتی ہیں۔ درحقیقت انہی باتوں کو سنجیدہ لیا جاتا ہے کیونکہ ہم صرف فضول مسائل کو ہی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور پھر ان پر مزید سنجیدگی سے بحث کرتے ہیں۔
ایسی ہی ایک مثال یہ رپورٹ تھی کہ نواز شریف، بانی (جیسا کہ اب عمران خان کو کہا جا رہا ہے) سے ملنے اڈیالہ جیل جا رہے تھے حالانکہ نواز شریف پارلیمنٹ تو آتے نہیں۔ اگرچہ اس خبر کی جلد ہی تردید کردی گئی لیکن اسی طرح کی ایک اور کہانی زیادہ دیر تک توجہ کا مرکز رہی۔
دوسری خبر یہ تھی کہ آصف علی زرداری، ایوانِ صدر سے رخصت ہونے والے ہیں۔ جب یہ خبر پہلی بار سامنے آئی تو حکومت میں بیٹھے افراد پہلے تو ’سکتے‘ کی کیفیت میں چلے گئے۔ سیاستدانوں کا یہ متوقع ردعمل اس خدشے کے تحت تھا کہ یہ خبر کہیں انہی لوگوں کی طرف سے تو نہیں آئی جن کا نام لینے کی ممانعت ہے؟ میرا مطلب ہے کہ پروٹوکول اور لگژری گاڑیوں کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے کی گئی اس نام نہاد ’شادی‘ میں، کس میں بھلا اتنی ہمت ہوگی کہ وہ کسی ایسی افواہ یا معلومات کی تردید کرے جو شاید انہی لوگوں کی سرگوشی ہو جنہوں نے آپ کو اقتدار کی آسائشوں سے نوازا ہے؟
لہٰذا مکمل خاموشی تھی۔ ڈرائنگ رومز میں سرگوشیاں ہورہی تھیں جبکہ سوشل میڈیا پر پوسٹس زیرِ گردش تھیں۔ اور جب تردید آنا ہی تھی تو اسے مسلم لیگ (ن) سے بھی زیادہ مستند ذرائع سے آنا چاہیے تھا۔ چنانچہ وزیر داخلہ کو میدان میں آنا پڑا۔
افواہیں اگرچہ دم توڑ چکی ہیں لیکن سوالات اب بھی باقی ہیں کہ یہ افواہ شروع کیسے ہوئی۔ اس کے لیے صرف غیرذمہ دار صحافیوں کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ باتیں بنا رہے ہیں۔ کیا کوئی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو دھچکا دینا (یا اسے پریشان کرنا) چاہتا تھا؟ اور کس مقصد کے لیے؟ اور بار بار تجزیہ کار یہ نشاندہی کیوں کرتے رہتے ہیں کہ مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی حکم جس میں پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستیں پی پی پی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف) و دیگر جماعتوں کو دے دی گئیں، کے بعد پی پی پی حکومت کے لیے اب زیادہ اہم نہیں رہی؟
اور وہی ’ماہرین‘ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اِن دنوں مسلم لیگ (ن) گورننس کے معاملے میں کتنی بری کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے اور کیسے ایک مشہور ظہرانے نے اسے غیرمتعلقہ بنا دیا ہے؟ چینی کی درآمد پر ہونے والی تنقید قدرتی یا بے ساختہ محسوس نہیں ہوتی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ تو اصل سوال یہ ہے کہ اس قسم کے تجزیے اور تنقید آخر آ کہاں سے رہی ہیں؟
یا کیا یہ تمام اشارے شاید سیاستدانوں کو متنبہ کرنے کے لیے ہیں کہ وہ سنبھل جائیں؟ اسلام آباد نامی شہر میں سب کچھ ممکن ہے اور تمام ممکنات پر بحث کی جاسکتی ہے۔ جہاں عام لوگ الجھن میں مبتلا ہیں، وہیں سیاستدانوں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں۔ انہیں تو ہمیشہ ہی پریشان رہنا چاہیے۔ طاقت کبھی بھی بےمعنیٰ نہیں ہوتی۔ یہ عمران خان سے پوچھیں، نواز شریف اور آصف علی زرداری سے پوچھیں، وہ آپ کو ان آسائشوں کی قیمت زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خود کو طاقتور حلقوں کی گڈ بکس میں شامل کرنے کے لیے اتنی زیادہ محنت کررہی ہے۔ اتنی زیادہ کوشش کررہی ہے کہ اس نے عمران خان کو ہی دیوار سے لگا دیا ہے۔ انہوں نے ان سے احتجاج کرنے کو کہا اور وہ لاہور ڈنر کرنے چلے گئے۔
جبکہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا خیال ہے کہ حکومت چلانے میں ناکامی ہو یا سیاست کی کمی، سب چیزوں کا ازالہ صرف بیان بازی سے ہوسکتا ہے۔ لیکن پھر وہی بات آجاتی ہے کہ جب تک آسائشیں اور لاہور میں ایک اچھا ڈنر میسر ہیں، کسی کو کوئی پروا نہیں۔
کیونکہ جو اچھا وقت وہ اور وزیر اعظم پاکستان گزار رہے ہیں، اس کے پیچھے وہی طاقتور عناصر ہیں جبکہ یہ طاقتور لوگ پنجاب، خیبرپختونخوا یا کسی بھی صوبے کے ووٹرز تو ہرگز نہیں ہیں۔
درحقیقت یہ سب کچھ ایسا ہی ہے جیسے بڑے فارما کی جانب سے ہیلتھ پریکٹیشنرز کے لیے کانفرنسز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دعوے کچھ بھی کیے جائیں، ایسے ایونٹس کا اہتمام صرف منتظمین اور حاضرین کے فائدے کے لیے کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ واقعی میں نہیں ہوتا۔ ایک پراپرٹی ٹائیکون نے ایک بار اس کے لیے الفاظ کہے تھے جنہیں اس تحریر میں شامل کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
