نقطہ نظر

’گلوبل نارتھ کسی فضلے سے جان چھڑوانے کی طرح اپنے قیدی غریب ممالک میں بھیج رہا ہے‘

عام طور پر سزا یافتہ مجرمان اور ناپسندیدہ افراد کو ان کے آبائی ملک بھیج دیا جاتا تھا لیکن آج کی دنیا میں انہیں کہیں بھیکسی بھی ملک میں بھیجا جا سکتا ہے۔

اسواتینی دنیا میں کہاں ہے؟ یہ افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس سے کوئی سمندر نہیں لگتا جبکہ اس کی سرحدیں جنوبی افریقہ اور موزمبیق سے ملتی ہیں۔ اب یہ ویتنام، لاؤس، کیوبا، جمیکا اور یمن سے بھیجے گئے مجرمان کا گھر ہے جنہیں حال ہی میں امریکی جیلوں سے ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔

لیکن اسواتینی ہی کیوں؟ شاید اس کی وجہ اس کے قومی عزم سے جڑی ہے جو یہ ہے کہ ’ہم ایک قلعہ ہیں، ہم ایک راز ہیں، ہم اپنے آپ کو پوشیدہ رکھتے ہیں‘۔

کسی تیسرے ملک میں ڈی پورٹ کرنا کوئی نیا عمل نہیں ہے۔ 19ویں صدی میں برطانیہ نے اپنے سزا یافتہ مجرمان کو آسٹریلیا بھیجا تھا۔ 1788ء سے 1868ء کے درمیان ایک لاکھ 62 ہزار مجرمان کو آسٹریلیا منتقل کیا گیا۔ حال ہی میں آسٹریلیا میں داخل ہونے والے ایک شخص سے پوچھا گیا کہ کیا اس کا کوئی مجرمانہ پس منظر ہے جس پر اس شخص نے مضحکہ خیز انداز میں کہا، ’کیوں؟ کیا اب بھی آسٹریلیا میں داخل ہونے کے لیے سزا یافتہ قیدی ہونا شرط ہے؟‘

عام طور پر سزا یافتہ مجرمان اور ناپسندیدہ افراد کو ان کے آبائی ملک بھیج دیا جاتا تھا۔ لیکن آج انہیں کہیں بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ گلوبل نارتھ کے اکثر امیر ممالک کسی فضلے سے جان چھڑوانے کی طرح اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو گلوبل ساؤتھ کے غریب ممالک میں بھیج رہے ہیں۔

مثال کے طور پر ڈینمارک نے اپنی جیلوں میں قیدیوں کی زیادہ تعداد کو کم کرنے کے لیے کوسوو کے ساتھ 10 سالہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت کروڑوں مالیت کے عوض ڈینمارک کو نئی تجدید شدہ جیل میں 300 کمرے ملیں گے۔ بیلجیئم بھی کوسوو کے ساتھ اسی طرح کے معاہدے پر غور کررہا ہے۔ نیدرلینڈز اگلے سال شاید 500 غیر ملکی قیدیوں کو ایسٹونیا بھیجے گا۔ آسٹریا بھی ایسا ہی کرنا چاہتا ہے اور سویڈن، سویڈش اور غیر ملکی دونوں قیدیوں کو دوسرے ممالک بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔

رواں سال مارچ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا میں قید 200 سے زائد وینزویلا کے شہریوں کو ان کے گھر سے تقریباً 2 ہزار 500 کلومیٹر دور ایل سلواڈور کی ایک میگا جیل میں بھیج دیا۔

برطانیہ میں قیدی کی دیکھ بھال مہنگا عمل ہے جس میں سالانہ تقریباً 50 ہزار پاؤنڈز کی لاگت آتی ہے۔ اس کی جیل کی آبادی 87 ہزار ہے جوکہ جیل کی گنجائش کا 97 فیصد ہے۔ لیکن حکومت قیدیوں سے زیادہ پناہ کے متلاشیوں کے حوالے سے فکرمند نظر آتی ہے۔ پچھلی کنزرویٹو حکومت نے پناہ کے متلاشیوں کو روانڈا بھیجنے کی اسکیم میں 70 کروڑ پاؤنڈز کی خطیر رقم خرچ کی۔ اس میں روانڈا کی حکومت کو 29 کروڑ پاؤنڈز کی ادائیگی، ایسی پروازوں پر رقم ضائع کرنا جنہوں نے کبھی اڑان نہیں بھری، سیکڑوں پناہ کے متلاشیوں کو ہوٹلز میں رکھنا اور ایک ہزار سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کرنا شامل تھا جنہوں نے اس منصوبے پر کام کیا۔

تاہم موجودہ لیبر حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ کسی بھی سیاسی پناہ کے متلاشی کو روانڈا ڈی پورٹ نہیں کیا گیا۔ صرف 4 غیر قانونی تارکین وطن نے وہاں جانے کا انتخاب کیا اور وہ بھی ہر ایک نے حکومتی ترغیب کے طور پر 3 ہزار پاؤنڈز کی پیشکش کے بعد روانڈا جانے پر آمادگی ظاہر کی۔

آج برطانیہ کو ڈنکرک کے انخلا جیسی صورت حال کا سامنا ہے لیکن یہ ڈنکرک کے برعکس ہے۔ پناہ کے متلاشی ہر طرح کی کشتیوں میں انگلش چینل عبور کرکے برطانیہ آرہے ہیں۔ برطانوی اور فرانسیسی حکومتوں کی کوششوں کے باوجود گزشتہ سال کے مقابلے میں کشتیوں کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2025ء میں اب تک 21 ہزار سے زائد لوگ کراسنگ کر چکے ہیں جنہیں روکا نہیں گیا۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ’ون ان، ون آؤٹ‘ معاہدے کا اعلان کیا ہے۔ اس معاہدے میں ایک شخص کو برطانیہ میں داخل کیا جائے گا اور اس کے بدلے میں غیر قانونی طور پر برطانیہ آنے والے دوسرے شخص کو فرانس واپس بھیج دیا جائے گا۔

معاہدے کا دوسرا حصہ زائد افراد کے ہجوم والی کشتیوں کو ساحل سے 300 میٹر تک روکنا ہے۔ ایک حالیہ واقعے میں فرانسیسی پولیس نے کشتی کو روکنے کے لیے اس میں سوراخ کیا۔ اس کے باوجود اس کشتی نے فرانس کے ساحل سے مزید مسافروں کو اس میں سوار کیا اور انہیں برطانیہ پہنچا دیا۔ اسی دن 10 دیگر کشتیاں برطانیہ پہنچیں جو 573 پناہ کے متلاشیوں کو لے کر آئی تھیں۔

ان کشتی والوں کی ذہانت پر حیران ہونا چاہیے کہ جن کے پاس تمام رکاوٹیں توڑنے کے وسائل موجود ہوتے ہیں۔ وہ ہر یورپی سرحد پر ہونے والے پاسپورٹ کنٹرول سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ ان کے پاس اب بھی اتنی رقم ہے کہ وہ ایک چھوٹی، غیر محفوظ کشتی پر جگہ کے لیے ادائیگی کر سکیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ اکثر کم ترقی یافتہ ممالک ہیں جو تارکین وطن کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ پاکستان ایک وقت میں 40 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کی میزبانی کرتا تھا۔ اس کے بعد سے بہت سے لوگوں کو وطن واپس بھیج دیا گیا ہے لیکن 10 لاکھ سے زائد اب بھی ملک میں مقیم ہیں۔ اس معاملے میں ایران زیادہ بے رحم ہو چکا ہے۔ 24 جون سے 9 جولائی 2025ء کے 15 دنوں میں ایران سے 5 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو بے دخل کیا گیا ہے اور وہ اپنے گھروں کو جا چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ جنگ کے دوران برطانوی فوجیوں کی مدد کرنے والے افغان اب خطرے میں ہیں۔ ایک غلطی کی وجہ سے ان میں سے تقریباً 19 ہزار افراد کی ذاتی معلومات لیک ہوگئیں جس سے ان کی حفاظت خطرے میں پڑ چکی ہے۔

ایک خفیہ آبادکاری کی اسکیم کے تحت 4 ہزار 500 افغان شہریوں اور ان کے خاندان کے افراد کو برطانیہ منتقل کیا گیا ہے جبکہ دیگر دو ہزار 400 کو بھی منتقل کیا جانا ہے۔ اس کی لاگت 85 کروڑ پاؤنڈز سے تجاوز کر جائے گی۔ برطانیہ یہ رقم اپنی مدد کی قیمت سمجھتا ہے۔ لیکن طالبان اسے دھوکا دہی کے انعام کے طور پر دیکھتے ہیں۔

آج پاکستان کی جیلوں کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہے حالانکہ پاکستان میں جیلوں میں قیدیوں کے لیے گنجائش 65 ہزار بتائی جاتی ہے۔ ہر طرح کے قیدی پھر چاہے وہ کوٹ لکھپت کا ہو، اڈیالہ، ایل سلواڈور، کوسوو یا ایسواتینی کا، سب ایک طرح کی تلخ حقیقت میں جی رہے ہیں جوکہ آسکر والڈ کی نظم کے ان اشعار کے مطابق، ’ہم قیدیوں کو سب معلوم ہے کہ دیوار بہت مضبوط ہے، اور ہر دن ایک برس جیسا ہے، ایسا برس جس کے دن بہت طویل ہیں‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ایف ایس اعجازالدین

ایف ایس اعجاز الدین ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بہت عمدہ لکھتے ہیں،آپ عرصہ دراز سے ڈان سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔