سفرنامہ: سرزمین روس کے آب و گیاہ میں آوارہ گردی!
ہنستے جھومتے بانہوں میں بانہیں ڈالے رقص کرتے روس کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے کھلکھلاتے چہرے دیکھ کر نامور ظرافت نگار مشتاق احمد یوسفی کی بات شدت سے یاد آئی کہ ’دنیا کی آدھی لذیذ چیزیں مولویوں نے حرام کر دیں باقی آدھی ڈاکٹروں نے منع کردیں‘۔
آپ اسے خوش قسمتی کہیں یا ماضی میں انجام دیا گیا کوئی کارِ خیر جو روسی فیڈرل ایجنسی آف یوتھ افیئرز، گورنمنٹ آف اورینبرگ ریجن اور ورلڈ یوتھ فیسٹیول ڈائریکٹریٹ ماسکو کی جانب سے بین الاقوامی یوتھ فورم ’یوریشیا گلوبل 2025ء‘ میں شرکت کی دعوت پر امسال ہمیں دوسری بار سرزمین روس کے آب و گیاہ میں آوارہ گردی کا موقع میسر آیا۔
سرزمینِ اورینبرگ میں دوبارہ قدم رکھنا کسی خواب سے کم نہ تھا۔ اروینبرگ روس کا جنوب مغربی علاقہ ہے جو دو براعظموں یورپ اور ایشیا کے قلب میں واقع ہونے کی وجہ سے منفرد جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے۔ اورینبرگ کی خوبصورتی، سحرانگیزی اور حشر سامانی کا حق شاید الفاظ ادا نہ کر سکیں مگر اس سفر کے دوران ہمیں اس خطے کے دلکش پہاڑ، دریائے یورال کے کناروں کے خوبصورت خطوں اور تاحدِ نظر دور تلک پھیلے سبزے سے اٹے میدانوں میں آزادی سے گھومتے زمین پر موجود آخری جنگلی پریوالسکی گھوڑوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
ہمیں اس خطے کے ثقافتی ورثے، خانہ بدوش قبائل کی روایات، قدیم سارماتی سونے کے نوادارت سے مزین عجائب گھروں اور مشہور اورینبرگ شالز کی فیکٹری کا رخ کرنے کا موقع ملا جبکہ ان مقامات کی خاک چھاننے کا بھی موقع ملا جو پہلے خلاباز یوری گاگرین کی یادگار ہیں اور ان خوبصورت قدرتی حسن سے مزین علاقوں میں ہائیکنگ کا موقع ملا جہاں کبھی روسی مشہور شاعر الیگزینڈر پشکن نے زندگی کےکچھ اہم ایام گزارے تھے اور ان سے تحریک لے کر کئی نظمیں تخلیق کیں۔
جون کے اواخر کو یوریشیا گلوبل 2025ء کی عظیم الشان افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں اس ریجن کے فنکاروں کی ثقافتی پرفارمنس نے شرکا کی بھرپورتوجہ و داد وصول کی جبکہ اس موقع پر مہمانوں کے استقبال کے لیے روایتی اورینبرگ کراوائے (ایک گول روٹی جو میزبانی کی علامت ہے) پیش کی گئی۔ اس یوتھ فورم میں دنیا بھر کے 53 ممالک کے علاوہ 80 سے زائد روسی ریجنز کی نمائندگی شامل تھی۔
اس ضمن میں ایک واقعہ جس نے ہمیں بے حد متاثر کیا وہ ایک روسی دوشیزا دارشا والانِتسکیس کی کہانی تھی جو دور دراز گاؤں چوانسکویے سے آئی تھیں۔ فورم پہنچنے کے لیے ان کا ہفتہ بھر کا سفر چار مختلف سفری ذرائع بشمول ہیلی کاپٹر کے ذریعے ممکن ہوا جو روس کے اپنی نوجوان نسل کو مضبوط کرنے کے پختہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے خیال میں لوگ جب سماجی و معاشی طور پر آسودہ حال ہوں تو ان کے چہروں سے صاف عیاں ہوجاتا ہے۔ ہمیں روس کی نوجوانوں نسل کے ہنستے کھلتے چہروں پر بشاشت کے ساتھ ساتھ زندگی میں آگے بڑھنے کے پختہ عزم اور اپنی اپنی منزل کو پانے کی لگن و جستجو صاف نظر آئی۔
ہمارے قیام کے دوسرے دن علی الصبح ہمارے قافلے نے شہر کی چمک دمک کو کچھ لمحات کے لیے خیرباد کہہ کر اورینبرگ کے جنوب مشرقی علاقے کا رخ کیا جو پری یورال کا علاقہ ہے۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں کی قدرتی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔ نصف گھنٹے کے سفر کے بعد ہم لونالینڈ اسکیپ پارک پہنچے۔ اس پارک میں قدم رکھتے ہی ایک سحر انگیز کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور لگتا ہے کہ جیسے پریوں کا مسکن ہو کیونکہ یہ روسی طرزِ تعمیر کا شاہ کار پگوڑہ نما یادگار چھوٹی عمارتوں، چھوٹی جھیلوں کے ساتھ ساتھ گزرتی ہموار گزرگاہوں پر مشتمل ہے۔
لونا پارک سے واپسی پر رات کو ’دی اورال ریور‘ کے عنوان سے اورینبرگ کی ثقافت سے متعلق ایک رنگارنگ تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں مقامی فنکاروں نے مقامی دھنوں پر رقص کے ذریعے سماں باندھ لیا جس میں فنکاروں کے جسم کی ہر جنبش میں روایات سے جڑی ایک دلکشی اور ان کے لبوں سے ادا ہوتے نغموں کے ہر بول میں یہاں کی لوک کہانیوں سے جڑی ایک حکایت عیاں تھی۔
ہمارے روس میں قیام کے تیسرے روز میزبانوں نے اورینبرگ شہر کی سیر کا انتظام کیا تھا۔ اورینبرگ شہر کی ہر گلی کوچے اور قریے سے ایک نئی دلکشی اور ایک نیا رنگ عیاں ہوتا ہے اور ہر نئے پڑاؤ میں اس خطے کی خوبصورتی کی ایک نئی جھلک کا سامنا ہوتا ہے۔
شہر کے دورے کا آغاز مشہور اورینبرگ ڈونی شال کے ورکشاپ سے ہوا جو نفیس کاریگری اور صدیوں پرانی روایت کی عکاس ہے۔ اس ورکشاپ میں اورینبرگ کی مشہور شالوں کی تیاری کے مختلف مراحل کا مشاہدہ کرنا ایک بہترین تجربہ تھا۔
ورکشاپ کے داخلی راستے میں، اورینبرگ کے بکری کے بچوں کی قیام گاہ ہے جن کے بالوں کو مختلف جدید مشینوں کی مدد سے گزار کر مشہور اورینبرگ شال، جراب اور مختلف چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔ یہ محض ایک ٹیکسٹائل نہیں بلکہ اس خطے کی جیتی جاگتی ثقافتی وراثت کا ایک عمدہ شاہ کار ہے۔
ہمارا اگلا پڑاؤ روستروپوویچ فیملی ہاؤس میوزیم تھا جو روس کے20ویں صدی کے عظیم موسیقار چیلوسٹ مستسلاو روستروپوویچ کی رہائش گاہ تھی جسے اس کی وفات کے بعد عجائب گھر میں تبدیل کیا گیا ہے۔
اس عظیم موسیقار کے سادہ سے روایتی روسی خاندانی گھر میں چہل قدمی کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے اس کی زندگی کے مختلف ادوار کا مشاہدہ کرتے ہوئے انسان ماضی میں کھو جاتا ہے کہ انہی کمروں میں بیٹھے جہاں کم عمر روستروپوویچ کبھی موسیقی کا مشق کیا کرتے ہوں گے اوراس شہر نے ایک ایسے موسیقار کو جنم دیا جس کا چرچا روس سے نکل کر مختلف براعظموں تک پھیل گیا۔
ہماری اگلی منزل ہرمیٹیج یوریشیا میوزیم تھی جہاں ہمارا سفر اختتام پذیر ہوا جو روس کے مختلف علاقوں کے معدنیات کےخزانوں سے مزین ہے۔ اس عجائب گھر میں سنگ سلیمانی، یشب، یشم اور سنگ مردار کے قیمتی پتھر موجود تھے جو اس قدر نفاست سے پالش کرکے سجائے گئے تھے کہ ہر قیمتی پتھر کا ٹکڑا کوہ نور کے ہیرے کی طرح لگتا تھا۔ یہ خوبصورت اور بیش بہا معدنیات جو یورال پہاڑوں سے حاصل کی جاتی ہیں، نہ صرف اورینبرگ کی معدنی دولت کی عکاس تھیں بلکہ اس کے یورپ اور ایشیا کے درمیان پل ہونے کے کردار کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔
ہم کافی دیر سے میوزیم کے اندر نوادرات دیکھنے میں محو تھے کہ اچانک باہر بارش شروع ہو گئی۔ اورینبرگ میں بارش نہایت تیز ہوتی ہے اور جب تک ہم نے باہر کا رخ کیا سڑکیں جھل تھل کا سماں پیش کر رہی تھیں۔ چھتری کی تلاش کی بجائے ہم اور ہمارے ساتھیوں نے بارش میں چہل قدمی کا ارادہ کیا اور ان خوبصورت لمحات سے محظوظ ہوتے ہوئے دی اسٹریٹ میں کافی دیر چلتے رہے رہے۔ اورینبرگ کی بارش میں چہل قدمی کرنا اور اس خطے کے دلکش راستوں میں ساون کی بارش میں بھیگنا اس سفر کی ناقابلِ فراموش یادوں میں سے ایک تھا۔
شام اپنا سمے کھول رہا تھا۔ ہمارے قافلے نے ’اورینبرگ کے ذائقے‘ نامی فوڈ فیسٹیول کا رخ کیا۔ فضا میں مقامی لوک موسیقی کی لے گونج رہی تھی۔ اس فیسٹیول میں مختلف ثقافتوں، روسی کھانوں اور مختلف قومیتوں کا امتزاج موجود تھا۔ یہ تقریب اورینبرگ تاریخی میوزیم کے سامنے منعقد کی گئی جہاں مشہور روسی شاعر الیگزینڈر پشکن کا مجسمہ نصب ہے۔ مورخین کے مطابق پشکن نے اپنی زندگی کے 19 دن اورینبرگ میں گزارے جہاں انہوں نے کئی نظمیں لکھیں۔ اسی وجہ سے اس شہر کو ’پشکن کی نظموں کی الہام کا خطہ‘ کہا جاتا ہے۔
روس کے اس سفر کی ایک اور اہم خاص بات ہمارا اورینبرگ سے ماسکو کے ٹرین کا سفر تھا جس نے ہمیں روس کے وسیع اور متنوع خطوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ تقریباً 22 گھنٹے کے اس سفر میں ہم نے تاحد نظر دور تک پھیلے وسیع و عریض میدان، گھنے جنگلات اور پرسکون روسی گاؤں اور قصبے کا مشاہدہ کیا۔
ہمارے کیبن میں دو ادھیڑ عمر روسی خواتین بھی شریکِ سفر تھیں جنہوں نے بے حد محبت اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے دو بار روسی کھانوں سے ہماری تواضع کی حتیٰ کہ ہمارا کافی کا کپ تک دھو دیا۔ روس کے ابلے ہوئے آلو (اوٹوارنوی کارٹوفیل) اور نمکین کھیرے (سولیونی اوگورٹسے) کا تجربہ لاجواب تھا۔ زبان سے ناواقفیت کے باوجود ان کی ہمدردی دل کو چھو لینے والی تھی۔
اس سفر کے دوران کھڑکی سے روسی دیہاتوں کی روزمرہ زندگی کا مشاہدہ کرنا شاندار تجربہ تھا۔ سادہ لکڑی کے بنے مکانات، سلیقے سے سجائے گئے باغیچے شہر کی زندگی چمک دھمک سے پرے ایک پُرسکون دنیا کی جھلک تھی۔
سمارا ریجن میں ٹرین کے ایک گھنٹے کے اسٹاپ کے دوران ہماری روسی دوست پولینا زووڈا کے ہمراہ شہر کے گلی کوچوں اور بازار میں چہل قدمی کرنا اور بازار میں ریڑھی سجائے بیٹھی روسی بزرگ خاتون سے خرید کر روسی سافٹ ڈرنک پینے کا تجربہ ایک شاندار لمحہ تھا۔
علی الصبح ہم ماسکو شہر پہنچ گئے جہاں سے ہم نے ماسکو انٹرنیشنل بزنس سینٹر کا رخ کیا۔ صاف و شفاف شاہراہوں پر آسمان سے بارش کی چَھم چَھم گرتی بوندیں گیت سناتی جیسے دھمال کر رہی ہوں اور دریائے ماسکو کے کنارے صبح صبح اکیلے اپنی مستی میں گم آپ آوارہ گردی کر رہے ہوں تو یہ شاید قدرت کے انمول تحائف میں سے ایک کہنا بے جا نہ ہوگا۔
دریائے ماسکو کے کنارے کھڑے ہوکر ماسکو انٹرنیشنل بزنس سینٹر کے نظارے کا اپنا ایک لطف ہے۔ بادلوں کے سفید ٹکڑوں میں گِھرے آسمان کو چھوتی بلند و بالا عمارات جدید ماسکو کی عظمت کے نشان ہیں۔
ہمارا روس کا یہ دوسرا دورہ محض ایک سفر نہیں تھا بلکہ ایک ان گنت تجربات و مشاہدات کا ایک خوبصورت مجموعہ تھا جس میں ہم پر اس وسیع و عریض ملک کی ثقافت، تاریخ اور قدرتی حسن کی کئی پرتیں واضح ہوئیں۔ اورینبرگ کے سبزہ سے اٹے میدانوں کی سحر انگیزی ہو یا یورال کے پہاڑ اور دریا کی سحر انگیز فضا، روسی فنکاروں کا روایتی رقص ہو یا اس خطے کا ثقافتی ورثہ، عوام کا خلوص ہو یا مہمان نوازی سب ہی نے ہمارے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے اور یہ ایک عرصے تک یادوں کے حسین آنگن کو مہکاتے رہیں گے۔
لکھاری محقق اور کالم نگار ہیں جو بین الاقوامی امور سے متعلق موضوعات پرمختلف انگریزی اخبارات میں لکھتے ہیں۔ سفر کرنا ان کا مشغلہ ہے۔ پیشے کے اعتبار سے اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک سے منسلک ہیں۔ ۔ آپ کا ایکس ہینڈل @tehzeeb_says ہے۔
