نقطہ نظر

نواب اکبر بگٹی کی موت جو بلوچستان کی سب سے طاقتور مزاحمتی تحریک کا سبب بنی

بلوچستان میں موجودہ مزاحمتی تحریک جس کی شدت میں ہر دن اضافہ ہورہا ہے، اس کا سب سے بڑا محرک نواب اکبر خان بگٹی کا مشرف حکومت کے ہاتھوں قتل تھا۔

بلوچستان مسئلے کے خصوصی سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


’اس نے میرے 16 فوجی جوانوں کو مارا ہے۔ میں ڈیرہ بگٹی میں اس کے گھر میں گھس کر ماروں گا‘۔

ایوان صدر میں صحافیوں کے گروپ سے ملاقات کے اختتام پر جب ایک صحافی نے بلوچستان خاص طور پر اکبر خان بگٹی کے بارے میں سوال کیا تو اپنے دونوں ہاتھ مخصوص انداز میں کمر پر رکھتے ہوئے سابق جنرل پرویز مشرف نے جب یہ الفاظ کہے تو ان کے چہرے کی سختی بتا رہی تھی کہ وہ منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔

نواب اکبر خان بگٹی کی پہلودار شخصیت کا میں خاصی تفصیل سے گزشتہ بلاگ میں ذکر کرچکا ہوں۔ نواب اکبر خان کی 6 دہائیوں پر محیط زندگی بڑی ہنگامہ خیز رہی جس میں وہ اپنے سیاسی دوستوں، دشمنوں سے انتقام کی حد تک نبرد آزما رہے، وہیں ان کے آخری دن اور پھر ڈرامائی موت محض متنازع ہی نہیں بلکہ دل دہلا دینے والی تھی۔

جنرل ضیاالحق کی اگست 1988ء میں ناگہانی موت کے بعد جب 1990ء میں جمہوری عمل کا آغاز ہوا اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اسٹیبلشمنٹ کی ساز باز سے ایک دوسرے کی حکومتیں گرائیں تو اسے ’شام ڈیموکریسی‘ (sham democrarcy) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں صورت حال اس سے بھی زیادہ بدترین تھی۔ ضیاالحق کے پورے دور میں وہاں گورنر راج تھا اور اگلی ایک دہائی کوئٹہ کو اسلام آباد سے چلایا جاتا رہا۔

نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی حیدرآباد سازش کیس کے خاتمے کے بعد جب ضیا دور میں حیدرآباد جیل کا پھاٹک کھلا تو بلوچستان کے تینوں بڑے اپنے اپنے راستے جدا کرچکے تھے۔ اس دوران پہاڑوں اور جیل میں نظربند بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (بی ایس او) کے عسکریت پسند نوجوانوں نے اپنے اپنے جتھے بنانا شروع کردیے تھے۔ روایتی بلوچ سیاست کے بجائے انہوں نے دوٹوک الفا‎‎ظ میں آزاد بلوچستان کا نعرہ لگایا۔

کابل اور ایک حد تک ماسکو سے انہیں مالی، نظریاتی اور عسکری مدد بھی ملی۔ بی ایس او کے سابق صدور خیر جان بلوچ، عبدالرازق بگٹی اور حبیب جالب بلوچ، بلوچ نوجوان کے نئے ہیرو تھے۔ سردار عطااللہ مینگل ابتدا ہی میں اپنی بیماری کے سبب حیدر آباد جیل سے رہا ہوکر لندن جاچکے تھے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے بلوچ، سندھی، پشتون سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ایک اتحاد بھی بنایا۔ فیڈریشن کے بجائے کنفیڈریشن ان کا نیا منشور تھا مگر کچھ ہی دنوں بعد اس اتحاد نے دم توڑ دیا۔ بعد کے دنوں میں سردار مینگل نے لندن میں خاموش زندگی گزاری اور پھر خاموشی سے ہی مشرف حکومت کے دور میں وطن واپس آگئے۔

کراچی کی ڈیفنس سوسائٹی میں سردار عطااللہ مینگل سے میں نے اپنے ٹی وی پروگرام کے لیے انٹرویو بھی لیے مگر ان کی زبان اور لہجے کی سختی اسکرین برداشت نہیں کرسکی۔ اس دوران سردار عطااللہ نے اپنی سیاسی وراثت اپنے ہی مزاج کے طرح تیز بیٹے سردار اختر مینگل کو منتقل کردی۔

نواب خیر بخش مری جو جیل سے رہائی کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ کابل جاچکے تھے، ضیاالحق کے دور اقتدار میں واپس آئے تو انہیں لانے کے لیے ایک خصوصی جہاز کابل بھیجا گیا۔ نواب خیر بخش مری نے بعد کا عرصہ بہ ظاہر گوشہ نشینی میں ہی گزارا مگر اپنی جگہ یہ المیہ ہے کہ کٹر مارکسسٹ سخت گیر قوم پرست نواب خیر بخش مری کے دو بیٹوں گزین مری اور چنگیز مری نے اقتدار کے ایوانوں کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔

تیسرے بیٹے ہربیار مری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد کے حقیقی معنوں میں جانشین تھے۔ آج کی معروف عسکری علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے بیج ہربیار مری نے ہی بونا شروع کردیے تھے۔ ہربیار مری، نواب اکبر خان کے سیاسی وارث اور ان کے پوتے براہمداغ بگٹی سے بتدریج قریب ہوئے اور پھر جب نواب اکبر خان کے خلاف تین اگست کو ملٹری آپریشن کا آغاز ہوا تو ہربیار اور براہمداغ ان کے ساتھ تھے۔

ڈان اخبار میں پرویز مشرف حکومت کے وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے جہاں نواب اکبر خان کی 26 اگست کی شب موت کی تصدیق کی وہیں براہمداغ اور ہربیار کے بارے میں امکان ظاہر کیا تھا کہ وہ بھی مارے گئے ہیں۔

نواب خیر بخش مری اور بلوچستان کی سیاست کے سب سے قدآور رہنما میر بخش غوث بزنجو کا میں تفصیل سے ذکر کرنا چاہتا تھا۔ میر غوث بزنجو بلوچ قوم پرست تحریک کے بانیان میں سے تھے۔ برسوں جیلوں کی کال کوٹھریوں میں رہے۔ 4 دہائیوں تک بلوچستان کی سیاست کے سرخیل کی حیثیت سے راج کیا مگر 1988ء کے انتخابات میں انہیں جس طرح شکست ہوئی یا دی گئی وہ بلوچستان کی سیاست کا ایک المناک باب ہے۔ معذرت کے ساتھ بزنجو صاحب بلوچستان کو وفاق سے جڑے رکھنے کی آخری امید تھے۔

میں نواب اکبر خان کو پیچھے چھوڑ آیا کیونکہ جنرل ضیاالحق کے دور میں نواب اکبر خان کا بلوچستان کی سیاست میں بہ ظاہر کوئی مرکزی کردار نہیں تھا۔ اس پورے عرصے میں بلوچستان میں گورنر راج رہا۔ جنرل ضیا کی ناگہانی موت کے بعد جب ایک بار پھر جمہوری عمل کا آغاز ہوا تو نواب اکبر خان نے پھر ڈیرہ بگٹی سے نکل کر کوئٹہ میں ڈیرہ ڈال دیا۔ اس دوران ایک سیاسی جماعت جمہوری وطن پارٹی تشکیل بھی دی۔ قوم پرست جماعتوں سے مل کر ایک کمزور سیاسی اتحاد بھی بنایا۔

فروری 1989ء سے اگست 1990ء تک صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی رہے مگر بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کی کرسی نواب اکبر خان کے لیے اتنی پُرکشش نہیں تھی جس سے وہ اپنے مزاج کے برخلاف چمٹے رہتے۔ اگلی ایک دہائی تک نواب اکبر کی سیاسی سرگرمیاں کوئٹہ کراچی اور اس سے زیادہ ڈیرہ بگٹی تک محدود رہیں۔

اس دوران انہوں نے اپنے بڑے صاحبزادے نوابزادہ سلیم بگٹی کو اپنا جانشین بنانے کی کوشش کی۔ ڈیرہ بگٹی سے سلیم بگٹی قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے مگر ان کا مزاج شاہانہ رہا جبکہ وہ وقت سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار گئے۔

سلیم بگٹی کی شادی بلوچستان کے ماربل کنگ نبی بخش زہری کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ اسلام آباد سے خاص قربت کے سبب انہوں نے ’جیوے پاکستان‘ پارٹی بھی بنائی تھی۔ پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں کہ نواب اکبر خان کی ہمہ گیر شخصیت میں بلا کی حس مزاح تھی۔ ایک شام نواب صاحب کراچی میں شاہراہ فیصل پر نبی بخش زہری کے بنگلے پر پہنچے تو وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں جیوے پاکستان پارٹی کا اجلاس ہورہا تھا۔ نواب صاحب اپنی روایتی شان و شوکت سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے اور اپنے مخصوص پُرمزاح انداز میں کہا، ’ہاں زہری کیسی چل رہی ہے تمہاری پیوے پاکستان پارٹی؟‘

بلوچستان کی مخصوص روایت کا پاس رکھتے ہوئے میں ان کے خاندان کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ نواب اکبر خان کی دہائیوں پر پھیلی شخصیت کا ایک المناک پہلو یہ بھی تھا کہ وسیع العیال ہونے کے باوجود ان کا کوئی بیٹا ایسا نہ تھا جو ان کی زندگی میں ان کا سیاسی جانشین بن پاتا۔

نواب اکبر خان کی پہلی اہلیہ سے 4 بیٹے ہوئے، سلیم خان بگٹی، طلال بگٹی، ریحان بگٹی، سلال بگٹی جبکہ ان کی دوسری بیگم سے ایک ہی بیٹا جمیل اکبر بگٹی تھا۔ نواب اکبر خان کی اپنے تمام بیٹوں میں سلال بگٹی سے زیادہ قربت تھی جن کی انہوں نے باقاعدہ سیاسی تربیت بھی کی۔ جون 1992ء میں سلال بگٹی کو جناح روڈ کوئٹہ کی سڑک پر دن دہاڑے ان کے مخالف کلپروں نے قتل کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ سلال بگٹی کی موت نے نواب صاحب کی کمر توڑ دی تھی۔

بگٹی قبیلے کی شاخ کلپر کی اپنے نواب سے کب اور کیسے انتقام کی حد تک لڑائی ہوئی وہ ایک گنجلک موضوع ہے۔ نواب اکبر خان کے سیاسی اور سرداری نصاب میں نافرمانی کا مطلب مخالف کی موت تھا۔ بلوچی روایت کے مطابق ایک مرحلے پر کلپروں نے اپنی خواتین کو سروں پر قرآن رکھ کر مصالحت کے لیے ڈیرہ بگٹی بھیجا مگر نواب اکبر خان نے اسے نظرانداز کردیا۔ بگٹی قبیلے کے ہزاروں کلپر کو خاندان سمیت سرائیکی بیلٹ میں برسوں پناہ لینا پڑی۔

عجیب اتفاق ہے کہ میں جون 1992ء میں کوئٹہ کے جس مہمان خانے میں ٹھہرا تھا وہاں پیغام ملا کہ چند نوجوان کلپر مجھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ شام کو جو نوجوان ملنے آئے ان میں ایک کا نام ذہن پر زور ڈالنے کے بعد یاد آرہا ہے جوکہ غالباً قربان بگٹی تھا۔ یہی وہ شخص تھا جس نے اگلے دن سلال بگٹی پر گولیاں برسائیں اور یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ وہ زندہ نہیں بچے، جناح روڈ کے تھانے میں خود کوگرفتاری کے لیے پیش کر دیا تھا۔

نواب اکبر خان کی شخصیت اور سیاست کا تفصیل سے ذکر اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ 2000ء کے آس پاس جب بلوچستان میں پانچویں بڑی مزاحمتی تحریک چلی اور جس کی شدت میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، اس کا سب سے بڑا محرک نواب اکبر خان بگٹی کا مشرف حکومت کے ہاتھوں قتل تھا۔

یہاں معذرت کے ساتھ میڈیا کے حوالے ایک معصوم لفظ شکایت ضرور تحریر میں لانا چاہتا ہوں کہ جہاں بلوچستان کی سیاسی، معاشی محرومی کا سبب اسلام آباد کے اصلی وڈے حکمران ہیں وہیں اپنے طور پر ہمارے قومی میڈیا نے بھی بلوچستان کو نظرانداز کیا۔ ایک دو مطالعاتی کتابوں اور چند کالموں میں ضرور اس کا ذکر ملے گا۔

مشرقی پاکستان کے بعد بلوچستان میں ہونے والی 1976ء-1971ء کے دوران ہونے والی خون ریز جنگ میں بھٹو حکومت کے 80 ہزار سیکیورٹی فورسز نے جو 50 ہزار چھاپہ مار کارروائیاں کیں اور جس میں گن شپ ہیلی کاپٹر تک استعمال ہوئے۔ اس وقت ہمارے پرنٹ میڈیا میں اسے سنگل کالم خبر تک کی جگہ نہ ملی اور آج تک اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں جاری مزاحمت کی خبر، اسلام آباد سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز کی مرہونِ منت ہے۔

میجر جنرل (ر) فدا حسین ملک نے اپنی کتاب ’Balochistan: A Conflict of Narratives‘ میں لکھا کہ گو کہ نواب اکبر بگٹی اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان چھوٹی بڑی جھڑپوں کا سلسلہ 2000ء سے شروع ہوگیا تھا مگر 15 دسمبر 2005ء کو کوہلو سے واپسی پر آتے ہوئے فرنٹیئر کورپس کے انسپکٹر جنرل اور ان کے ڈپٹی کے ہیلی کاپٹر پر حملہ ہوا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے۔ اس سے پہلے ڈیرہ بگٹی کے سامنے مورچہ لیے فوجی اہلکاروں پربھی ایک حملہ ہوا جس میں 16 فوجی جوان جاں بحق ہوئے۔ اسلام آباد میں بیٹھے فوجی حکمرانوں نے اسے براہ راست ریاست پر حملہ قرار دیا۔

سوئی اور ڈیرہ بگٹی کی اس سنگین کشیدہ صورت حال میں جنوری 2005ءکے آغاز میں سوئی کے PPL کمپنی کے ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں مقیم ڈاکٹر شازیہ خالد کا ریپ ہوا جس میں وہ شدید زخمی ہوئیں۔ نواب اکبر خان بگٹی کے علاقے میں یہ واقعہ بلکہ سانحہ ہوا تو وہ اس سے کیسے بے خبر رہ سکتے تھے۔ اگلی ہی دن ان کے بیان میں اس کا ذمہ دار ایک سیکیورٹی اہلکار کو قرار دے دیا گیا۔ نواب صاحب نے اس کو بھی اپنی انا کا ایک مسئلہ بنالیا۔

ڈاکٹر شازیہ خالد اپنے ہاسٹل میں تنہا رہتی تھیں۔ فوری طور پر ڈاکٹر شازیہ کو کراچی منتقل کردیا گیا۔ ڈاکٹر شازیہ خالد کا موضوع حساس ہے۔ مگر اب جبکہ دو دہائی گزر چکی ہے تو یہ لکھنے میں حرج نہیں کہ اس واقعے پر پردہ ڈالنے کے لیے اسلام آباد کے دو سینئر صحافیوں نے کراچی میں ویمن ایکشن فورم کی ایک سینئر ایکٹوسٹ کے گھر پر ڈاکٹر شازیہ سے ملاقات کی اور انہیں کینیڈا اور برطانیہ جانے کا ویزا دلانے کا وعدہ کرکے ایک معقول رقم بھی دی۔

مہینہ یا سال تو یاد نہیں کیونکہ کافی دن ہوگئے لیکن ڈاکٹر شازیہ نے دی ہیرالڈ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان سے کینیڈا کا ویزا اور 50 ہزار پاؤنڈ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن انہیں صرف ایک ہزار پاونڈ دیے گئے اور کینیڈا کے بجائے برطانیہ کا ویزا دیا گیا۔

نواب اکبر بگٹی سے مصالحت کے لیے چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید اور صحافی نسیم زہرا کو ڈیرہ بگٹی بھیجا گیا۔ نواب صاحب نے چوہدری شجاعت سے کہا کہ میرے گھر کے سامنے جو فوجی چوکی ہے اسے فوراً ہٹایا جائے۔ چوہدری شجاعت اپنی کتاب ’سچ تو یہ ہے‘ میں لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے پرویز مشرف کو یہ پیغام دیا تو انہوں نے فوری طور پر چوکی ہٹا دی۔ مگر صورت حال اس سے زیادہ سنگین تھی۔ ڈیرہ بگٹی میں بیٹھ کر نواب صاحب دنیا کی سیاست سے باخبر رہتے تھے۔ ہر شام ان کی بیٹھک میں ٹی وی لگا ہوتا تھا، قہوہ کا دور چل رہا ہوتا تھا اور نواب صاحب کی سب سے سنگین صورت حال میں بھی زندہ دلی بر قرار رہتی۔

نواب صاحب جیسی جہاں دیدہ، شخصیت کا معصومانہ پہلو دیکھیں انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ پاکستان میں ٹیلی ویژن پر سیٹلائٹ کے ذریعے لائیو پروگرام بھی ہوتے ہیں۔ میں ان دنوں انڈس ٹی وی سے وابستہ تھا۔ نواب صاحب کی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں بیانات آرہے تھے۔ میں نے سندھ کے مشہور سیاسی رہنما الہٰی سومرو جوکہ میرے پروگرام میں باقاعدگی سے آتے رہے، سے درخواست کی کہ وہ میرا نواب صاحب سے لائیو انٹرویو کروا دیں۔

میرے ساتھ ممتازصحافی، انور ساجدی بھی لائیو پروگرام میں بیٹھے تھے۔ نواب صاحب اس وقت تک یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ایجنسیز کی سازش ہے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ مشرف کے دور میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ٹی وی پر لائیو آئیں۔ پروگرام شروع ہوا تو انہوں نے سومرو صاحب کو مخاطب ہو کر کہا ’الہیٰ بخش ذرا اپنا ہاتھ تو ہلاؤ‘۔ سومرو صاحب ہنس پڑے اور بڑے پیار سے کہا، ’نواب صاحب، یہ ہمارے دوست کا پروگرام ہے ورنہ تو میں یہاں ہوتا نہ آپ۔‘ نواب صاحب کو تو میں نے اپنے پروگرام میں بلا لیا مگر بعد میں بڑی مشکل سے جان چھٹی۔

سابق جنرل پرویز مشرف ایک پروفیشنل جنرل ہونے کے باوجود ان پر انتقام کا جذبہ غالب آ جاتا تھا۔ جولائی 2006ء کے آس پاس ڈیرہ بگٹی میں نواب صاحب کے آبائی گھر پر باقاعدہ حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہے مگر اگلے ہی دن انہوں نےقریبی پہاڑوں کے غار میں پناہ لے لی۔ نواب صاحب غار میں بیٹھ کر بھی وائر لیس کے ذریعے میڈیا سے رابطے میں رہے جس کی بہرحال انہیں داد دینی پڑے گی کیونکہ انہوں نے اپنے مزاج اور شخصیت کے مطابق زندگی تو گزاری ہی مگر اپنی موت کا چناؤ بھی انہوں نے ہی خود کیا۔

اس دوران نواب صاحب کا اگر کسی نے ساتھ دیا تو وہ نواب خیر بخش مری اور ان کے صاحبزادے بالاج مری تھے۔ غار میں مقیم نواب صاحب نے چند دن بعد اپنے سو سے زائد بگٹی مری محافظوں کے ساتھ چلگری میں بھنبور کے پہاڑوں کے غار میں پناہ لی۔ 3 اگست کو مشرف حکومت فوجی آپریشن کا آغاز کرتی ہے۔ نواب اکبر بگٹی پہاڑوں میں بڑے پیمانے پر ہیلی کاپٹرز سے بمباری کرتے ہیں۔ 72 گھنٹے تک یہ آپریشن جاری رہتا ہے جس میں جہاں متضاد دعووں کے مطابق 40 مری بگٹی اور سیکیورٹی فورسز کے 21 جوان جن میں ایک کرنل، دو میجر، تین کیپٹن مارے گئے۔

نواب اکبر بگٹی کی جس بہیمانہ انداز میں ہلاکت ہوئی اس نے بلوچستان میں پانچویں مزاحمتی تحریک پر جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ نواب صاحب کے ساتھ موجود ہربیار مری اور براہمداغ بگٹی بحفاظت نکل جانے میں کامیاب ہوگئے۔ نواب اکبر بگٹی کی شہادت پر بلوچستان میں شدید ردعمل ہوتا ہے جبکہ اس دوران پہلے ہی سے مزاحمت کرتی بی ایل اے اور بی آر اے کو نواب اکبر خان بگٹی جیسا شہید بھی مل جاتا ہے۔ (جاری ہے)

مجاہد بریلوی

مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔