نقطہ نظر

9 مئی مقدمات کے فیصلے دو سال بعد اس وقت ہی کیوں سنائے گئے ہیں؟

دو سال بعد اب جبکہ وہ لوگ جو بچ نکل سکتے تھے، بچ چکے ہیں اور وہ جن کو کبھی معافی نہیں ملے گی، جیل میں پھنسے ہیں تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ 9 مئی مقدمات کے فیصلے اب کیوں آئے ہیں؟

9 مئی کے مقدمات کے فیصلے آچکے ہیں اور وہ بھی اس طرح کے جیسے فیصلوں کی کوئی ہول سیل لگی ہو۔ طویل انتظار کے بعد فیصلے سامنے آئے ہیں جبکہ اس دوران جو سلاخوں کے پیچھے تھے وہ جیل میں ہی رہے جبکہ جو کسی نہ کسی طرح آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، بیشتر سزاؤں سے بری ہوگئے۔

اب تک صورت حال واقعی تبدیل نہیں ہوئی ہے کیونکہ ہم صرف یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ کیا کوئی بھی معروف نام جو قصوروار پائے گئے ہیں لیکن اس وقت آزاد ہیں، انہیں پکڑ کر جیل میں ڈالا جاتا ہے یا نہیں۔

ان میں سے کچھ بھی حیران کُن نہیں۔ سزائیں نہ بریت۔ اور یہاں تک کہ ان لوگوں کے نام بھی نہیں جو پہلے ٹرائل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

اب تک سامنے آنے والے تین فیصلوں میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور لاہور کے دیگر قیدیوں کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے جن میں مختلف اسمبلیوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اہم رہنما شامل ہیں جیسے قومی اسمبلی کے عمر ایوب سے لے کر سینیٹ میں شبلی فراز تک اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر احمد بچھر کے خلاف سزائیں سنائی گئی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ عدالتی فیصلے استغاثہ کے اہم گواہوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں جو زمان پارک میں چھپے ہوئے تھے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو ’شیطانی‘ منصوبہ بندی کرتے ہوئے سنا تھا۔ ان پولیس افسران کی گواہی کی بنیاد پر پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے جبکہ انہوں نے ان عدالتی مباحثوں میں حصہ بھی لیا۔

لوگوں کو شاید 9 مئی کو ہونے والے واقعات کی تمام تفصیلات یاد نہ ہوں لیکن یہ ٹو اسٹار رکھنے والے اہم گواہ اب بھی یاد ہیں، یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جو سرسری ان مقدمات کی کارروائی سنتے تھے۔

اس کے بعد سے لوگوں کے لیے میزوں کے نیچے یا صوفوں کے پیچھے چیک کرنا ضروری ہوگیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے وہ اسلام آباد میں آرام دہ معمول کی گفتگو کے دوران وہ اپنے فون کو کُشن کے نیچے چھپا لیتے ہیں۔ اس بگ برادر سے ہوشیار رہیں جو شاید آپ کے فون کے ذریعے آپ کی باتیں سن رہا ہے اور اس پولیس والے سے بھی ڈریں جو آپ کی کافی ٹیبل کے نیچے چھپا ہے۔

لیکن ان تمام الجھنوں میں کہ کس کو سزا دی گئی اور کسے بخش دیا گیا، اصل سوال ہے کہ اب کیوں؟ دو سال بعد اب جبکہ وہ لوگ جو بچ نکل سکتے تھے وہ نکل چکے ہیں اور وہ جن کو کبھی معافی نہیں ملے گی، اب بھی جیل میں پھنسے ہیں، ایسے میں یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان مقدمات کے فیصلے اب کیوں آئے ہیں؟ مقصد کیا ہے؟

جنہیں بخشا نہیں گیا وہ تو پہلے ہی جیل میں ہیں اور جو لوگ آزاد تھے بالکل دیگر سیاست دانوں کی طرح اب بھی باہر موجود ہیں حالانکہ پولیس ان کی تلاش کر رہی ہے۔ لیکن سچ کہوں تو مجھے شک ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی حراست میں لیا جائے گا۔

لیکن میں موضوع سے بھٹک گئی۔ سوال برقرار ہے جوکہ ہے کیوں؟ اور اس وقت ہی کیوں؟

ایسا نہیں ہے کہ حکومت یا اس کے اتحادیوں کو استحکام یا قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ میں زیادہ نشستوں کی ضرورت تھی۔ یہ پہلے سے ہی کافی تعداد رکھتے ہیں اور جب بھی ضرورت ہو وہ آسانی سے فیصلے لے سکتے ہیں جیسا کہ 26ویں ترمیم میں دیکھا گیا۔

پوچھنے پر بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تحریک انصاف کو کمزور کرنا ہوسکتا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں پارٹی نے کافی جامع طور پر ظاہر کیا ہے کہ وہ مربوط یا حکمت عملی سے کام کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی اندرونی تقسیم نے اسے 5 اگست سے پہلے اور بعد میں کام کرنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے جبکہ عمران خان کے پارٹی کے ساتھ انتہائی محدود رابطے کی وجہ سے معاملات مزید الجھے ہوئے ہیں۔ یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ پارٹی چلانے والے بہت سے لوگ قابلِ اعتماد نہیں ہیں یا دباؤ میں ہیں۔ لہٰذا مجموعی طور پر ایسا نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی اتنی مضبوط ہے کہ کسی کے لیے واقعی فکر کا باعث بنے۔

جب یہ سوالات پوچھے جاتے ہیں تو بڑے ہوشیار ذہنیت کے لوگوں (جو اخبارات کے سب ایڈیٹرز سے زیادہ عقلمند ہیں) کا خیال ہے کہ مقصد صرف یہ دکھانا نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کمزور اور غیرفعال ہوچکی ہے بلکہ یہ بھی دکھانا ہے کہ اسے مزید توڑا جا سکتا ہے۔ اس کا مقصد پیغام پہنچانا ہے۔ یہ نہ صرف پی ٹی آئی کو پیغام بھیجنا ہے بلکہ سب کو یہ بھی دکھانا ہے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ اپنے مضبوط کنٹرول اور پوزیشن کے حوالے سے پُراعتماد ہیں۔

اس کا تعلق حالیہ بین الاقوامی واقعات ہیں جیسے پاک-بھارت تنازع اور دنیا کا اس پر ردعمل بالخصوص وائٹ ہاؤس کے ساتھ بڑھتی نئی قربتیں۔ بنیادی طور پر اندرون ملک پیغام واضح ہے جوکہ یہ ہے کہ نظام مکمل طور کنٹرول میں ہے اور کسی کو اس میں شک نہیں ہونا چاہیے۔

لیکن یہ پوری کہانی نہیں۔ کہیں یہ تشویش بھی ہے کہ لوگ شاید 9 مئی کو ہونے والے واقعات بھول نہ جائیں۔ یہ ایک خوفناک واقعہ تھا اور اس کے ذمہ داران کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔ یہاں یہ خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے مقدمات کو یونہی چھوڑ دیا اور پیروی نہ کی تو اس سے یہ پیغام جائے گا کہ 9 مئی کو صرف سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر اسے بھلا دیا گیا۔

اگر معاملہ یہ نہیں ہے تو مجرمان کو ’انصاف‘ کے کٹہرے میں لانا ہوگا تاکہ عوام (پاکستان میں مقیم زیادہ تر لوگوں) کو سمجھ آسکے کہ یہ معاملہ کتنا سنجیدہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے بھی سنائے گئے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ ایسے ہی لوگ جنہوں نے مہینوں 9 مئی کو ناقابل فراموش قرار دینے اور اس کے ذمہ داروں کو کبھی معاف نہیں کیے جانے کے دعوے کرنے میں گزار دیے، وہ اب معافی کے امکان کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ معافی کا خیال گزشتہ دو سالوں میں پہلے بھی آیا تھا لیکن اب ٹی وی اور دیگر مقامات پر اس کے بارے میں جس طرح زیادہ زور و شور سے بات ہو رہی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

اگر یہ آخری مسئلہ تشویشناک ہے تو یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ایسے فیصلے جو مزید سوالات کو جنم دیتے ہیں، وسیع تر تاثر کو بدلنے میں کامیاب ہوں گے؟ خاص طور پر اس عمل میں عدالتی نظام کو نقصان پہنچا ہے۔ اور اسے مزید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے کہ جب سزا یافتہ افراد اپیل دائر کریں گے اور اعلیٰ عدالتیں ان مقدمات کی سماعت کریں گی۔ عام طور پر اعلیٰ عدالتوں اور اس سے آگے کی کارروائیوں پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ 26ویں ترمیم کے بعد کی عدلیہ کی ساکھ کے اعتبار سے ذیلی عدالتوں کے ان فیصلوں کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔

لیکن پھر بار وہی ہے کہ اب ان باتوں پر کان کون دھرے گا؟ ساکھ اور اعتبار اب ایسے الفاظ بن چکے ہیں کہ جو اب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارفہ نور

لکھاری صحافی اور ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ‘نیوز وائز’ کی میزبان ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔