نقطہ نظر

’بین المذاہب رواداری، جشنِ آزادی کی روح ہے‘

'پاکستان کا قیام قدرت کو منظور تھا اور قدرت کو یہ بھی منظور تھا کہ مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی سب مل کر رہیں'۔

پاکستان کے پرچم میں سبز اور سفید رنگ کا امتزاج، اس سرزمین کی آبادی کے تنوع کا عکاس ہے۔ گہرا سبز رنگ ملک کی 96.35 فیصد مسلم اکثریت اور امن کا سفید رنگ 3.65 فیصد غیر مسلم آبادی کی علامت ہے۔

غیر مسلم پاکستانیوں میں سب سے زیادہ تعداد ہندوؤں کی ہے جن کی اکثریت صوبہ سندھ میں بستی ہے۔ 2023ء کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کُل غیر مسلم آبادی 87 لاکھ 71 ہزار 380 ہے جس میں سب سے زیادہ تعداد (38 لاکھ 67 ہزار 729) ہندو ہیں جن میں سے 35 لاکھ 75 ہزار 848 سندھ میں آباد ہیں۔

یومِ آزادی کے موقع پر ہم نے سندھ کی ہندو برادری سے گفتگو کی جنہوں نے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ان سے ہماری اس گفتگو میں جہاں پاکستانی معاشرے کے بہت سے روشن پہلو نظر آئے وہیں وہ انتظامی خرابیاں بھی واضح ہوئیں جن کی وجہ سے قائد اعظم کے ’وژن‘ پر حرف آتا ہے اور یہ اربابِ اختیار کے لیے لمحۂ فکر ہے۔


’ آزادی سے پہلے اچھا کپڑا نہیں پہننے دیا جاتا تھا’


کھپرو کے رہائشی گینو پرمار ایک سماجی کارکن ہیں جو مختلف این جی اوز کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ مستقل ذریعہ آمدن کے لیے گینو ٹیکسی چلاتے ہیں۔ اُن کے بزرگوں کا تعلق ننگر پارکر سے ہے جو وہاں زراعت کے شعبے سے وابستہ تھے۔

گینو پرمار نے بتایا کہ ’میرے والدین سمیت کوئی بھی رشتہ دار 1947ء میں سندھ چھوڑ کر ہندوستان نہیں گیا کیونکہ وہ اپنی جنم بھومی سے محبت کرتے تھے البتہ 1965ء کی جنگ میں ان کے والدین اور دیگر رشتہ دار ننگر پارکر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے کہ جب بھارت نے رَن کچھ کا محاذ کھول دیا اور سندھ کے صحرائی علاقے پر حملہ کرکے تباہی مچائی۔ ننگر پارکر بھی اس کی زد میں آیا جس کے نتیجے میں برادری کے ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے، اور میرا خاندان بھی اس دوران کھپرو آکر بسا‘۔

گینو بتاتے ہیں کہ ان کے عزیز، رشتے دار یا دوستوں میں سے کسی نے بعد میں بھی بھارت جانے کا نہیں سوچا۔ انہوں نے کہا، ’ہمارے ننگر پارکر کی سر زمین میں ابھی تک بھارتی بموں کے ٹکڑے ملتے ہیں۔ ہم ’پارکری‘ ان حملوں کے نتیجے میں ہوئی اپنی قوم کی شہادتیں، تباہی اور بے گھری نہیں بھول سکتے‘۔

گینو پرمار نے بتایا کہ ’پاکستان بننے سے پہلے تھر پارکر میں ٹھاکروں کا راج تھا۔ یہاں صدیوں سے مقیم مقامی برادریاں، کولہی، بھیل، میگھواڑ وغیرہ، نچلی ذات میں شمار ہوتی تھیں۔ انہیں ’اچھوت‘ سمجھا جاتا اور ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ برہمن، کھشتری بنئیے، ان اونچی ذات کے ہندوؤں کے مقابل نچلی ذات کے لوگ بیٹھ نہیں سکتے تھے تو ایسے میں ان کے ساتھ کھانا پینا تو دور کی بات ہے۔ جس کنویں سے ٹھاکر لوگ پانی بھرتے تھے، اس کنویں سے اگر کوئی نچلی ذات کا آدمی غلطی سے بھی پانی پی لیتا تھا تو اس پر تشدد کرتے اور اَدھ مرا کرکے چھوڑتے تھے‘۔

گینو نے واقعہ بتایا کہ ایک مرتبہ ان کی برادری کی ایک عورت ٹھاکر کے گھر کام کرنے کے لیے اچھے کپڑے پہن کر چلی گئی تو ٹھاکر عورتوں نے اُس کے کپڑے پھاڑ دیے تھے۔

گینو کہتے ہیں، ’پاکستان بننے کے بعد کئی مسلم رہنماؤں نے انسانی حقوق اور سماجی مساوات کی عوامی تحریکیں چلائیں جن کے نتیجے میں ہماری قوم کے ذات پات کے نظام میں بھی سدھار آیا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا، ’1980ء کی دہائی میں سندھ کی شیڈولڈ کاسٹ کے لیے اچھا کام ہوا۔محمد جونیجو کے دور میں بہت سے اسکول کھولے گئے، پہلی مرتبہ ہماری اقلیتی برادری سے پارومل رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے علاقے میں بہت سے سرکاری اسکولز کھولے جن سے یہ ہوا کہ جو لوگ میٹرک تک پڑھے لکھے تھے انہیں بھی اچھی نوکریاں مل گئیں۔ بہت سے لوگ ٹیچر بن گئے تو اس طرح نچلی ذات کے لوگوں کا کافی فائدہ ہوا۔

گینو نے بتایا کہ خود انہوں نے گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول کھپرو سے میٹرک کیا جہاں وہ مسلمان طلبہ کے ساتھ برابری کی سطح پر پڑھتے تھے۔ گینو کے مطابق حالیہ عرصے میں بھی وہ جب کولہی برادری سے کرشنا کولہی اور ویر جی کولہی کو پارلیمنٹ کا حصہ بنے دیکھتے ہیں تو فخر محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان میں ان کی برادری کو یہ مواقع میسر ہیں، بھارت میں تو ابھی تک ان ذاتوں کو ’اچھوت‘ ہی سمجھا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’ہمیں معلوم ہے بھارت میں اقلیتوں کو اپنے مذہبی تہوار منانے کی آزادی نہیں، مسلمان بقر عید پر گائے قربان نہیں کرسکتے، وہاں کوئی مسلمان سائیکل بھی خرید لے تو ایجنسیز پیچھے پڑ جاتی ہیں کہ پیسے کہاں سے آئے۔ اس کے برعکس پاکستان میں ہمیں اپنا ہر تہوار منانے کی پوری آزادی حاصل ہے، مندر کھلے ہیں، کھانے کمانے کی آزادی ہے۔ اسی طرح ہم 14 اگست کو جشنِ آزادی اس طرح مناتے ہیں جیسے کہ ہماری عید ہو، بچہ بچہ پاکستان کے ترانے گاتا ہے‘۔

سندھ سے ہندو آبادی کی بھارت نقل مکانی کے معاملے پر گینو پرمار نے بتایا کہ ’ہماری کمیونٹی میں کسی کو اس طرح سے تنگ نہیں کیا جا رہا کہ ہم اپنی دھرتی چھوڑ کر چلے جائیں، اکا دکا واقعات ایسے سننے میں آتے ہیں وہ اس طرح کہ بعض لوگوں کے رشتہ دار بھارت میں ہیں جو انہیں کہہ دیتے ہیں کہ یہاں بہت کمائی ہے، پیسہ بنا سکتے ہو تو وہ چلے جاتے ہیں لیکن انہیں بھی جلد معلوم ہوجاتا ہے کہ ’دور کے ڈھول سہانے‘، کچھ عرصہ پہلے ٹنڈوالہ یار کے کچھ لوگ 200 ایکڑ زمین بیچ کر بھارت چلے گئے تھے مگر چند مہینوں میں واپس آگئے اور اب یہاں ٹھیلے لگا رہے ہیں‘۔


پاکستان میں ہر تہوار منانے کی آزادی


ڈاکٹر وجے کمار پنجوانی گزشتہ 30 سال سے سکھر میں میڈیکل پریکٹس کر رہے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سکھر کے فنانس سیکریٹری اور ہندو کمیونٹی کی تنظیم سندھ میڈیکل ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ ڈاکٹر وجے کمار کے بزرگوں کا تعلق سکھر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں ’چک بھاگڑجی‘ سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1947ء میں اُن کے بزرگوں نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سندھ کی مٹی سے محبت کرتے تھے’۔

ڈاکٹر وجے کمار کے مطابق پاکستان میں مذہبی آزادی ’فرسٹ کلاس‘ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اطمینان سے مندروں میں جاتے ہیں، مندروں کی دیکھ بھال بہت اچھی کی جاتی ہے، پوجا پاٹ کے لیے ان کی خواتین اکثر رات دیر تک بھی مندر میں رہتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دورانِ تعلیم بھی انہیں کبھی مذہبی تفریق کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ان کے مسلمان ہم جماعت خصوصاً ’ہولی‘ کا انتظار کرتے تھے اور کالج میں وہ دوستوں کے ساتھ ہی ہولی مناتے تھے۔

ڈاکٹر وجے کہتے ہیں، ’ہم ہندو مسلمان یہاں بغیر کسی مذہبی تفریق کے ’شیرو شکر‘ رہتے ہیں۔ میرے زیادہ تر دوست مسلم ہیں۔ سماجی یا ڈاکٹر کمیونٹی کا کوئی مسئلہ ہو، ہندو مسلم سب متحد ہوتے ہیں۔ ’ہندو پنچایت چیریٹیبل‘ ہسپتال میں ہندوؤں کے ساتھ مسلمان ماہرینِ امراض بھی فری وقت دیتے ہیں‘۔

جبری شادی کے سوال پر ڈاکٹر وجے نے مؤقف اپنایا کہ سکھر میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا دیہی سماج میں جہاں شیڈولڈ کاسٹ کی لڑکیاں، غربت اور محفوظ ماحول نہ ہونے کی بنا پر وڈیرے یا دیگر کی ہوس کا نشانہ بن سکتی ہیں جسے بعد میں شادی کا نام دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سماج میں ایک ساتھ رہتے ہوئے، ہندو مسلم محبت کی شادیوں کا تناسب بھی ایک سے دو فیصد تک ہوسکتا ہے۔

جشن آزادی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ جشنِ آزادی منانے کے لیے ہندو پنچایت کے خیراتی ہسپتال میں تقریب رکھتے ہیں اور پاکستان کی سالگرہ کا کیک کاٹا جاتا ہے۔


جنگِ آزادی کا ہیرو، روپلو کولہی’


سمیڑا رام چوہان کنری کے رہائشی ہیں۔ ان کے آباو اجداد ننگر پارکر کی کولہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ سب زراعت کے شعبے سے منسلک تھے۔ سمیڑا اپنے خاندان کے پہلے فرد ہیں جنہوں نے بارہویں (انٹر میڈیٹ) تک تعلیم حاصل کی اور شہر میں آکر باحیثیت سیلز مین کام شروع کیا۔

سمیڑا رام چوہان کہتے ہیں ’1947ء میں جب پاکستان بنا تو ہمارے بڑوں نے بھارت جانے کو کوئی اہمیت نہیں دی اور پاکستان میں رہنے کو دل و جان سے قبول کیا۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ ننگر پارکر کی زمین میں ہماری جڑیں ہیں۔

’کولہی قوم سے زیادہ آزادی کی قدر و قیمت کون جان سکتا ہے۔ ہماری قوم نے آزادی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں سے جنگ لڑی ہے۔ ہزاروں جانیں قربان کی ہیں۔ تاریخ میں ہمارا ایک نام ہے۔ ننگر پارکر کا بیٹا روپلو کولہی 16 سال تک انگریزوں سے لڑتا رہا۔ اس نے 1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریز سرکار کو سندھ فتح کرنے کی کوشش میں ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ روپلو آخری دم تک لڑتارہا، یہاں تک کہ غداروں نے اُسے پھانسی چڑھوا دیا مگر وہ ہارا نہیں۔ یہ کردار ہمارا ہیرو ہے‘۔


’فوج کے دروازے کھل گئے‘


سمیڑا چوہان مزید کہتے ہیں پاکستان بننے سے پہلے سندھ میں ذات پات کا بدترین نظام رائج تھا جب پاکستان بنا تو اقلیتوں کے حق میں قانون سازی کی گئی پارلیمنٹ میں ان کے لیے کوٹہ مختص کیا گیا اور شیڈولڈ کاسٹ کے نمائندوں کو اسمبلیوں میں جگہ ملی۔

سمیڑا اپنی ایک یاد کے حوالے سے بتاتے ہیں، ’میں انٹر میں پڑھ رہا تھا فرسٹ ایئر میں، میں نے فوجی تربیت نیشنل کیڈٹ کارپس حاصل کرنا شروع کی۔ مجھے فوج میں جانے کا جنون کی حد تک شوق تھا لیکن تب شیڈولڈ کاسٹ کو فوج میں نہیں لیا جاتا تھا۔ ایک دن فوجی ٹریننگ کے دوران میں نے اپنے صوبیدار سے سوال کیا کہ ’سر ہم پاکستانی ہیں اور اپنے ملک کے لیے لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں، ہمیں فوج میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ مجھے آپ آج کہیں تو میں بم باندھ کر بارڈر پر جاسکتا ہوں‘۔

’صوبیدار یہ سُن کر کچھ دیر خاموش رہے پھر کہا کہ ’چھور کیمپ میں بریگیڈیئر صاحب آئیں گے، میں ان کے سامنے آپ کا سوال رکھ دوں گا اور انہوں نے یہی کیا۔ ہمارے کالج میں 80 فیصد ہندو طالب علم تھے۔ اس سوال کی بازگشت، کور کمانڈرز میٹنگ سے ہوتی ہوئی ایوانوں تک پہنچی، بعد میں پرویز مشرف کے دور میں قانون پاس ہوگیا۔ فوج نے غیرمسلموں کے لیے بھی اپنے دروازے کھول دیے اور براہ راست کمیشنڈ افسران کی سلیکشن سے لے کر سپاہیوں تک، بڑی تعداد میں کولہی، بھیل، مینگھواڑ اوڈ اور راجپوت بھرتی کیے جانے لگے‘۔

سمیڑا کہتے ہیں، ’مجھے اپنی تعلیم کی وجہ سے عزت ملتی ہے۔ ایک دفعہ سندھ میں مسلمانوں کے ایک بڑے ’پیر‘ کے ساتھ ہمیں ایک جلسے میں جانا تھا۔ ہم 20 یا 25 افراد تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ پیر صاحب نے کہا میرے ساتھ گاڑی میں وہ بندہ بیٹھے گا جس کی تعلیم تم سب میں زیادہ ہے۔ ان سب میں میں تعلیم یافتہ تھا چنانچہ پیر صاحب نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا‘۔

سمیڑا نے گورنمنٹ ڈگری کالج عمر کوٹ سے انٹر کیا۔ وہ بتاتے ہیں سندھ کے موجودہ وزیر تعلیم سردار شاہ اُن کے کلاس فیلو تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور وزیر خادم منگریو کے بھائی خضر حیات، سیاسی شخصیت اکبر علی پلّی کالج میں ان کے ہم جماعت تھے۔ سمیڑا نے کہا کہ انہیں دورانِ تعلیم کبھی مسلمان طلبہ یا اساتذہ کی طرف سے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

14اگست کے اہتمام کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کا جشنِ آزادی ہم دل وجان کے ساتھ مناتے ہیں۔ ریلیوں میں جاتے ہیں اور خاص طور پر چھوٹے بچوں کو ضرور ساتھ لے کر جاتے ہیں تاکہ بچپن سے ہی ان کے دل میں آزادی اور وطن کی محبت پختہ ہوجائے‘۔

رادھا بھیل ’دلت سجاگ تحریک‘ اور رورل ایڈوانسمنٹ ڈیولپمنٹ ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن کی بانی چیئر پرسن ہیں۔ وہ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تعاون سے میرپور خاص اور نواح میں 4 مڈل اسکولز کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ رادھا نے 2018ء اور 2023ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے دیو ہیکل امیدواروں کے مقابل قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے الیکشن لڑا۔ رادھا یہ ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ ایک ہاری کی بیٹی اور شیڈولڈ کاسٹ کی عورت بھی وڈیروں کے مقابل آسکتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ہمارے آباو اجداد موہن جو ڈرو کے باسی ’دڑاور‘ نسل سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان بنا تو ہمارے بزرگ اپنا سندھ چھوڑ کر کہیں نہیں گئے اور نہ ہی ہم یہاں سے جائیں گے کچھ عرصہ پہلے ہماری بھیل برادری کے کچھ لوگ مسائل سے تنگ آکر انڈیا چلے گئے تھے مگر دو سال میں ہی واپس آگئے کیونکہ وہ سندھ کی مٹی نہیں چھوڑ سکتے‘۔

رادھا کہتی ہیں، ’ہماری برادری کو فخر ہے کہ شیڈولڈ کاسٹ کے ووٹ نے پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جوگندر ناتھ منڈل دلت برادری کی واحد شخصیت تھی جنہوں نے برطانیہ کے خلاف پاکستان اور قائداعظم کا ساتھ دیا۔

’1947ء میں جب ضلع سلہٹ کے عوام کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اپنے ضلع کو آسام ضلع میں ضم کریں گے یا اسے پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ اس وقت ضلع سلہٹ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ووٹوں کی تعداد برابر تھی مگر اچھوت برادری کا ایک بہت بڑا ووٹ بینک تھا۔ قائداعظم کے کہنے پر جوگندر ناتھ منڈل نے اچھوتوں کے ووٹوں کے ذریعے ریفرنڈم کا فیصلہ پاکستان کے حق میں کروادیا۔ قائد اعظم نے پاکستان میں اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت، جوگندر ناتھ کو سونپی، انہیں پاکستان کا وزیر قانون بنایا گیا‘۔

رادھا بتاتی ہیں کہ یومِ آزادی کے موقع پر ان کے چاروں اسکولز میں خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ وہ خود طلبہ کو آزادی کے شعور اور اہمیت پر لیکچر دیتی ہیں۔ رادھا کو یقین ہے پِسے ہوئے طبقے کی زندگی تعلیم اور شعور سے ہی بدل سکتی ہے۔


’سب بھارت جارہے تھے، دادا نے اپنا مندر نہیں چھوڑا‘


ڈاکٹر رتنا دیوان خصوصی افراد کے محکمے ’امپاورمنٹ آف پرسنز وڈ ڈس ایبلٹی‘ کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی سے فزیوتھراپی میں فارغ التحصیل ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے آباو اجداد، میکہ اور سسرال سب گھوٹکی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہتی ہیں، ’1947ء میں ہمارے کئی رشتے دار بھارت چلے گئے، کئی حادثاتی طور پر یہاں رہ گئے کیونکہ گاڑیاں چلنا بند ہوگئی تھیں لیکن بعد میں جب راستے کھل گئے تو بہت سے لوگ چلے گئے لیکن ہمارے بزرگوں نے یہیں رہنے کو ترجیح دی۔ میرے دادا پربھ داس برادری میں ’مرشد‘ کہلاتے تھے۔ گھوٹکی میں ہمارے پُرکھوں کا مندر ہے، دادا اس کے گدی نشین ہیں۔ دادا کے بھائی بھارت جارہے تھے، ان کے اصرار کے باوجود دادا بھارت نہیں گئے۔ انہوں نے کہا ’میں سندھو دریا، یہ مٹی اور اپنا مندر چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا‘۔

ڈاکٹر رتنا کے مطابق، ’ہمیں باحیثیت اقلیت اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی اور تہوار منانے کی مکمل آزادی ہے۔ آپ‘ ننکانہ صاحب’ یا حسن ابدال کے گردواروں کی رونقیں دیکھیں، اسی طرح سندھ میں بھی صدیوں پرانے مندر آج بھی قائم و دائم ہیں، گھوٹکی میں ہمارے آباو اجداد کے مندر کی تعمیرِ نو ہورہی ہے۔ ڈہرکی، شکارپور، مٹھی ہر جگہ ماتا کے مندر موجود ہیں اور مذہبی پیشوا تمام رسومات سر انجام دیتے ہیں۔ حکومت نے مذہبی آزادی کو یقینی بنایا ہے اس کے ساتھ مقامی مسلم برادری بھی بھرپور تعاون کرتی ہے، ہندوؤں کی تقریب ہو تو اردگرد کے لوگ اس کے لیے سہولیات فراہم کرتے ہیں’۔

رتنا بتاتی ہیں، ’میرے والد واپڈا میں ایکسین تھے، اُن کا پنجاب کے مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا تھا اور ہم ساتھ جاتے تھے۔ ہم جس شہر میں بھی رہے لوگوں سے بہت پیار ملا۔ مسلم برادری کو ہمارے رسم و رواج جاننے میں دلچسپی ہوتی تھی۔ میڈیکل تعلیم سے فارغ ہوکر میں والد صاحب کے پاس لاہور چلی گئی، میں دو تین ہسپتالوں میں پریکٹس کر رہی تھی۔ اس دوران ’دیوالی‘ کا تہوار آرہا تھا میں نے تین دن کی چھٹی کی درخواست دی تو مجھے سب کی طرف سے یہ جواب آیا کہ ’آپ یہاں اکیلے دیوالی نہیں منائیں گی، ہم آپ کے ساتھ ہوں گے‘۔

’اب مہمانوں کے لیے انتظام کا مسئلہ آیا تو ساتھی مسلم ڈاکٹر نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں، میرے گھر کی چھت بہت بڑی ہے‘ پھر ہم نے وہیں انتظام کیا، دیے جلائے، پٹاخے پھوڑے، کیک کاٹا اور اپنی زندگی کی یادگار دیوالی منائی’۔

وہ بتاتی ہیں، ’ہندو کونسل کے پلیٹ فارم اور انفرادی سطح پر دفتر اور گھر میں ہم جشنِ آزادی بھرپور انداز سے مناتے ہیں، سبز اور سفید لباس پہنتے ہیں، پاکستان نے حال ہی میں بھارتی جارحیت کا جس طرح کامیابی سے جواب دیا ہے، یہ جنگ جیت کر ہمیں یقین ہوگیا کہ ہماری آزادی پر پاک فوج کوئی آنچ نہیں آنے دے گی۔ اس جیت نے جشنِ آزادی کی خوشی دوبالا کر دی ہے‘۔

لاڑکانہ کے رہائشی راجکمار مُورپانی، کاروباری ہندو طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے دادا سنار تھے، والد رام چند، لاڑکانہ میونسپلٹی میں اکاؤنٹس افسر تھے۔ راجکمار ملبوسات کا کاروبار کرتے ہیں۔

راجکمار مُورپانی نے کہا ہمارے زیادہ تر دوست مسلمان ہیں، ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہمیں اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کرنے اور مندروں میں جانے کی مکمل آزادی حاصل ہے’۔

غزالہ فصیح

غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔