اسد اللہ مینگل: پہلا ’مسنگ پرسن‘ جس کے قتل نے بلوچستان کی سیاست کو بدلا
بلوچستان مسئلے کے خصوصی سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
‘وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کراچی میں تھے کہ جب سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی نے ٹیلی فون پر انہیں بتایا کہ شہر میں ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں آئی جی سندھ نے بتایا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار عطا اللہ مینگل کے صاحبزادے اسد اللہ مینگل کو بلخ شیر مزاری کے گھر سے اغوا کرلیا گیا ہے لیکن یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ اغوا کار کون ہیں۔
’وزیراعلیٰ مصطفیٰ جتوئی نے کہا کہ عینی شاہد نے پولیس کو اطلاع دی تھی کہ اسد اللہ اپنے ایک دوست (احمد شاہ کرد) کے ساتھ واقعے کی رات بلخ شیر مزاری کے گھر آئے تھے۔ بلخ شیر کراچی میں نہیں تھے مگر کسی نے دروازہ کھولا، اسد اللہ اور ان کے دوست اندر گئے۔ کچھ ہی دیر بعد اسد اللہ مینگل اور ان کے دوست باہر نکلے اور اپنی کار میں سوار ہوگئے۔ جونہی کار کا دروازہ بند ہوا تو گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ اسد اللہ مینگل کی کار بلخ شیر مزاری کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ملی ہے جو مکمل تباہ ہوچکی ہے۔ جب کار کو کھولا گیا تو اگلی نشست پر اور اس کے ساتھ والی نشست پر خون کے دھبے موجود تھے لیکن اسد اللہ مینگل اور ان کے دوست غائب تھے۔
’یہ بات سن کر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سخت پریشان ہوگئے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ کو حکم دیا کہ فوری طور پر پورے سندھ میں اسد اللہ مینگل کو تلاش کیا جائے۔ وزیراعظم نے وزیر اعلیٰ سندھ کو سخت لہجے میں ہدایت کی کہ اس راز پر سے پردہ اٹھانے کی ہرممکن کوشش کی جائے اور تمام امور پر اسد اللہ مینگل اور اس کے دوست کی بازیابی کو ترجیح دی جائے۔
’اگلے دن وزیراعظم کو پشاور جانا تھا۔ انہوں نے اپنے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ٹکا خان سے کہا کہ انہیں وہ پشاور میں ملیں۔ پشاور کے گورنمنٹ ہاؤس پہنچتے ہی وزیراعظم نے اپنے اے ڈی سی سے کہا کہ وزیراعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی کو فون ملائیں۔
’ابھی وزیراعظم کی وزیر اعلیٰ سے گفتگو جاری تھی کہ جنرل ٹکا خان کمرے میں آگئے۔ وزیراعظم نے فون رکھتے ہی جنرل ٹکا خان کو شام کے اخبارات کی سرخیاں دکھائیں۔ جنرل ٹکا خان نے افسردہ الفاظ میں کہا کہ بہت برا واقعہ پیش آیا ہے۔ ٹکا خان نے کہا کہ بلوچستان میں جھلاوان اور ساراوان میں ہونے والی شرانگیزی کو ختم کرنے کے لیے ہمیں مطلوبہ اطلاعات اسد اللہ مینگل اور اس کے ساتھی سے ملنے کی توقع تھی۔
’ٹکا خان نے بتایا کہ ہمیں اسد اللہ کے کراچی میں قیام کے بارے میں علم تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انہیں بلخ شیر مزاری کے گھر پہنچانے کے لیے کیا ترغیب دی جاسکتی ہے تاکہ انہیں وہاں سے گرفتار کیا جا سکے۔
’ظاہری طور پر ایسا ہی ہوا جیسا کہ منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن سیکیورٹی اداروں کے افراد یہ نہیں سوچ سکے کہ اسد اللہ مینگل اور ان کے دوست مسلح ہوں گے۔ جونہی ایس ایس جی کی گاڑی نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو دونوں جانب سے فائرنگ شروع کردی گئی جس کے نتیجے میں اسد اللہ مینگل اور ان کا ساتھی شدید زخمی ہوگیا اور کچھ دیر بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ ایس ایس جی ٹیم نے ان کی لاشوں کو کوئٹہ جانے والے راستے میں کہیں رات کے اندھیرے میں دفن کردیا۔
’یہ سب سن کر وزیر اعظم بھٹو ہیبت زدہ ہوگئے۔ انہوں نے جنرل ٹکا خان سے کہا اگر فوجی کمان جھلاوان سراوان میں شر انگیزی کو ختم کرنے کے لیے اسد اللہ مینگل کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کرنا چاہتی تھی تو وہ حکومت سندھ سے درخواست کرتی کہ ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جائیں۔ وزیر اعظم نے جنرل ٹکا خان کو یاد دلایا کہ انہوں نے بلوچستان کے باہر کے علاقوں میں فوجی کارروائی کا سختی سے منع کیا تھا۔
’وزیراعظم نے کہا کہ ’ذاتی دفاع‘ کا یہ بہت ہی شاندار طریقہ ہے اور ساتھ ہی کہا کہ وہ ان جرنیلوں کے نام جاننا چاہتے ہیں جنہوں نے ٹکا خان سے کہا کہ وہ مقتولین کی لاشیں ورثا کے حوالے نہ کریں۔ جنرل ٹکا خان نے بتایا کہ اس واقعے میں جنرل ضیا الحق، جنرل ارباب جہانزیب اور جنرل اکبر خان ملوث ہیں۔ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بھی ان سے متفق تھے۔ ٹکا خان نے مزید کہا جرنیلوں کی ٹیم نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایس ایس جی کی ٹیم کا ذکر بھی نہیں کریں گے جنہوں نے اغوا میں حصہ لیا تھا۔ جہاں تک لاشوں کا تعلق ہے تو جرنیلوں کا کہنا تھا کہ انہیں لاشوں کی کوئی خبر نہیں۔
’اگلے روز راولپنڈی میں جنرل ضیاالحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات میں درخواست کی کہ ملک کے بہترین مفاد اور فوج کی شہرت کے پیش نظر وہ ان کے مشورے کو مان لیں۔ انہیں خوف تھا کہ اگر یہ واقعہ عام ہوگیا تو بلوچستان میں فوجی کارروائی کا عمل رک جائے گا۔
’وزیراعظم نے پوچھا کہ بلوچستان میں فوجی کارروائی منجمد ہونے کا کیا مقصد ہے جس پر جنرل ضیا الحق نے کہا وہ اور ان کے ساتھی جنرل اس بہیمانہ غلطی کے بعد کئی دن سو نہیں سکے اور اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس واقعے کو اپنے ذہنوں سے کھرچ دیں گے۔ وزیراعظم بھٹو نے کہا، بس اسی طرح۔۔۔ اس پر انہیں جواب ملا جی ہاں بس اسی طرح۔۔۔‘
یہ طویل اقتباس پیپلزپارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام حسین کی کتاب ’میری داستان جدوجہد‘ سے لی گئی ہے۔
اسد اللہ مینگل کو بلوچستان کا پہلا مسنگ پرسن کہا جاتا ہے۔ یہ سانحہ جنوری 1976ء کا ہے۔ اسد اللہ مینگل کراچی کے نیشنل کالج میں زیرِ تعلیم تھے۔ سردار اختر مینگل نے اپنے بھائی کی ہلاکت کے حوالے سے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں اطلاع ملی کہ اسد اللہ کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی ہے تھوڑی دیر بعد پولیس آئی اور ہم سے پوچھنے لگی کہ اسد اللہ کہاں ہے۔ ہم تو حیران و پریشان تھے کہ ایک طرف ٹیلی فون آیا کہ گاڑی پر فائرنگ ہوئی ہے جبکہ وہ اس قسم کا تاثر دینا چاہ رہے تھے کہ اس معاملے میں وہ نہیں بلکہ کوئی اور ملوث ہے۔
سردار اختر مینگل نے مزید بتایا کہ ہم جب جائے وقوع پر پہنچے تو اسد اللہ کی گاڑی کھڑی تھی اور ڈرائیونگ اور اس کے ساتھ والی نشست پر خون کے دھبے تھے۔ یہ واقعہ رات 8 بجے پیش آیا جبکہ فائرنگ سے قبل علاقے کی بجلی چلی گئی تھی۔ چشم دید گواہ ایک طالب علم تھا جس نے بتایا کہ دو گاڑیاں آئیں تھیں ایک نے سڑک بند کی اور دوسری سے فائرنگ ہوئی۔
سردار اختر کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے والد سردار عطا اللہ مینگل حیدرآباد سازش کیس میں قید تھے مگر ان دنوں جناح اسپتال میں زیرِعلاج تھے۔ انہیں اسد نے چند دن قبل آگاہ کیا تھا کہ اس کا تعاقب کیا جارہا ہے تو والد نے انہیں اپنا خیال رکھنے کی ہدایت کی تھی‘۔ سردار اختر کا کہنا تھا، ‘والد جیل میں جبکہ چھوٹا بھائی منیر مینگل اور چچا مہر اللہ مینگل پہاڑوں پر تھے۔ اسد اللہ گھروں کو سنبھالتا تھا۔ میری خود اس وقت عمر 16 سال تھی‘۔
میں بہت تفصیل میں نہیں جانا چاہوں گا کہ ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کو بیان کرنے کے بجائے آگے نکل جاؤں۔ مگر 13 نومبر 1960ء کو لاہور کے شاہی قلعے میں حسن ناصر کی شہادت جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت کا ایسا ناقابل تلافی جرم ہے جسے 6 دہائیوں بعد بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
حسن ناصرکا حیدرآباد دکن کے خوش حال گھرانے سے تعلق تھا۔ 19 سال کی عمر میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے کارڈ ہولڈر بن گئے۔ قیام پاکستان کے بعد انڈیا کی کمیونسٹ پارٹی نے فیصلہ کیا تو خاموشی سے چند کامریڈوں کے ہمراہ پاکستان آکر روپوش ہوگئے۔ پارٹی کے کہنے پر انہوں نے اس وقت کی نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی کے کراچی میں مرکزی دفتر میں آفس سیکریٹری تھے اور خاص طور پر ٹریڈ یونین میں بڑے سرگرم تھے۔
ایوب خان کے دور میں جب سیاسی جماعتوں پر پابندی لگی تو ایک بار پھر حسن ناصر انڈرگراؤنڈ ہوگئے۔ ستمبر 1960ء میں ان کی کراچی سے گرفتاری ہوتی ہے اور یہ کہتے ہوئے اچھا تو نہیں لگتا لیکن مرحوم کامریڈوں نے ان کی مخبری کی تھی۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سیاسی کارکنان کو سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں دینا اور تفتیش کے لیے لاہور کے شاہی قلعے میں لے جانا عام بات تھی۔ فیض احمد فیض جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر کو بھی شاہی قلعے میں رکھا گیا۔ حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قعلے میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے 13 نمبر 1960ء کو ان کی موت واقع ہوگئی۔
مزدور کسان پارٹی کے رہنما مرحوم میجر محمد اسحٰق نے حسن ناصر پر اپنی کتاب میں اس سانحے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ خود میجر اسحٰق بھی شاہی قلعے میں رہ چکے تھے۔ انہوں نے جب لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تو سرکار کی جانب سے پیش ہونے والے افسران نے اسے خودکشی قرار دیا۔ میجر اسحٰق کی کوششوں سے حسن ناصر کی والدہ پاکستان آئیں۔ عدالتی احکامات پر قبرکشائی ہوئی تو ان کی والدہ نے اپنے بیٹے کے پیروں کو دیکھ کر کہا یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔ حسن ناصر کو کب کہاں کیسے دفن کیا گیا، یہ ایک سربستہ راز ہے۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں غالباً 1981ء میں کامریڈ نذیر عباسی کا اغوا ہوا۔ کراچی کے سی آئی اے سینٹر میں شدید تشدد کے بعد ہلاکت اور پھر انہیں کس طرح دفنایا گیا یہ بھی ایک پُراسرار کہانی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کامریڈ نذیر عباسی کو جہاں دفنایا گیا وہ جگہ ان کے ورثا نے تلاش کرلی تھی جہاں ہر سال برسی پر ان کی اہلیہ جو سیاسی کارکن بھی ہیں، باقاعدہ پھول چڑھاتی ہیں۔
اس وقت خوف کا یہ عالم تھا کہ آزاد چینل تو تھے نہیں صرف ایک سرکاری ٹی وی تھا، اخبارات پر سخت سنسر شپ تھی کامریڈ عباسی کی خبر اس وقت ہمارے بی بی سی کے کراچی میں نمائندے اقبال جعفری نے دی تھی۔ کراچی کے کثیر الاشاعت اخبار کے آخری صفحے پر چار سطروں میں ایک خبر ضرور شائع ہوئی تھی کہ سندھ نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے صدر نذیر عباسی کا انتقال ہوگیا ہے۔
ان دنوں میں کراچی پریس کلب کا رکن بن چکا تھا۔ اخبار سے خبر نکال کر میں نے نوٹس بورڈ پر لگادی لیکن اگلی صبح یہ خبر وہاں سے غائب تھی۔ خود مجھ میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ پریس کلب کے سیکریٹری سے اس کی شکایت کرتا۔
میں ایک بار پھر بلوچستان کی جانب لوٹتا ہوں جہاں اس وقت بلوچستان کی 5ویں بڑی مزاحمتی تحریک چل رہی ہے جس کی سرخیل کالعدم جماعت بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو ابھی کچھ ہی دن پہلے امریکا نے دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہے۔ شریف حکومت اسے اپنی بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہی ہے مگر کالعدم بی ایل اے، بی آر اے سمیت کوئی درجن بھر مزاحمتی تنظیموں کی پُرتشدد کارروائیوں کے اسباب و محرکات کیا ہیں، اس کے لیے میں نے اس سلسلے کا چوتھا بلاگ لکھا۔
آج ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچستان کی تمام قوم پرست جماعتوں سے زیادہ مقبول جماعت ہے۔ خود ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی شہرت بین الاقوامی سطح پرپہنچ چکی ہے جنہوں نے حالیہ برسوں میں کھلی سیاست کی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ اور ان کی بیشتر ساتھیوں کے والد بھائی یا بیٹے لاپتا ہوئے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ اپنی تحریک چلارہی ہیں جو ڈاکٹر ماہ رنگ کے جیل میں جانے کے باوجود مسنگ پرسن یعنی لاپتا افراد ایک ایسا موضوع ہے جس پر ایک الگ مضمون تحریر کرنا پڑے گا۔
2011ء میں قائم انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگی کی ایک رپورٹ کے مطابق 10 ہزار607 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جن میں سے 80 فیصد لاپتا افراد بازیاب ہوگئے۔ دوسری طرف وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق 2011ء سے 2017ء تک 528 افراد لاپتا ہوئے۔ لاپتا افراد کے حوالے سے ایک نام ماما قدیر کا بھی ہے جو ایک طویل عرصے سے احتجاج کررہے ہیں۔ سال بھر پہلے کراچی پریس کلب میں گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ یہ تعداد 14 ہزار سے اوپر ہے۔ مسنگ پرسنز کے بارے میں متضاد دعوے کیے جاتے ہیں اور ان میں بعض اعداد و شمار حقیقت سے دور لگتے ہیں۔
اس تحریر میں، میں نے پانچ دہائیوں قبل اغوا کرکے ماورائے عدالت قتل ہونے والے اسد اللہ مینگل کا تفصیل سے ذکر اس لیے کیا کیونکہ کالعدم عسکری تنظیمیں ہی نہیں بلکہ قوم پرست جماعتیں بھی بلوچستان میں جاری مزاحمت کا بنیادی سبب اور محرک مسنگ پرسن یعنی لاپتا افراد بتاتی ہیں۔ (جاری ہے)
مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔
