نقطہ نظر

پارک ویو سٹی یا بحریہ ٹاؤن: ’غیرقانونی تعمیرات کا خمیازہ متوسط طبقہ ہی اٹھاتا ہے‘

حکومت ہاؤسنگ اسکیمز کے ماحولیات کو نقصان پہنچانے کے منصوبے میں شراکت دار ہے جس کی وجہ سے آب و ہوا میں معمولی تبدیلی بھی بڑی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔

دو حالیہ واقعات جو بہ ظاہر تو متعلقہ نہیں لگتے لیکن رہائشی ریئل اسٹیٹ کے ساتھ پاکستانی ریاست کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ پہلی تو بحریہ ٹاؤن کی قانونی (اور سیاسی) پریشانیاں تھیں جن کی وجہ سے ریئل اسٹیٹ کے مالک نے اپنے پیغام میں خبردار کیا کہ ان کی رہائشی اسکیمز جلد ہی دیوالیہ اور آپریشنل طور پر غیر فعال ہوجائیں گی۔

دوسرا واقعہ پنجاب کے مشرقی دریاؤں میں حالیہ سیلاب کے دوران سامنے آیا۔ جب جسر اور شاہدرہ میں پانی کی سطح بڑھی تو جنوب وسطی لاہور میں راوی کنارے تعمیر ہونے والے پارک ویو سٹی ہاؤسنگ پروجیکٹ کی رہائشی گلیوں کی بڑی تعداد زیرِ آب آگئیں اور گھروں کو خالی کروانا پڑا۔

ان دونوں واقعات کی وجوہات کافی مختلف ہیں کیونکہ ایک میں تو سیاسی طاقت کی جدوجہد رہائشی اسکیم کے زوال کی وجہ بنی جبکہ دوسرے میں فطرت کا تصادم انسان کی حرس اور لالچ سے ہوا۔ لیکن اس کے باوجود دونوں نے ایک ہی طرح کی بحث کو جنم دیا ہے۔ دونوں واقعات میں ہی رہائشیوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا جہاں وہ تشویش میں مبتلا تھے کہ ان کا کیا بنے گا۔

زیرِ بحث اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جائیداد کی تعمیر اور فروخت کے نقصان دہ طریقوں میں متوسط طبقہ کی شمولیت کس حد تک ہے۔ دونوں مثالوں میں کچھ لوگ اسے مالیاتی تباہی یا فطرت کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو قدرت کے انصاف کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹنگ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی ذریعے یہ بات اچھی طرح رپورٹ ہوچکی ہے کہ کراچی و دیگر شہروں میں زمین کے حصول کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے جبکہ اس میں طاقتور حلقوں کی مداخلتیں بھی شامل تھیں۔ اس کا اطلاق صرف ایک کمپنی پر نہیں ہوتا بلکہ بہت سے بڑے ڈویلپرز پر ہوتا ہے۔ وہ دھمکیاں، خاندانوں یا کمیونٹیز پر دباؤ ڈال کر، ماحولیات کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہاں تک کہ زمین کے حصول اور نجی ہاؤسنگ پروجیکٹس بنانے کے لیے حکومتی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔

ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جو لوگ اس قسم کی ہاؤسنگ اسکیمز میں رہنے کا انتخاب کرتے ہیں، وہ درحقیقت ڈویلپرز کے غیر قانونی اور غیر منصفانہ اقدامات سے مستفید ہورہے ہوتے ہیں۔ جبر اور تشدد، ان لوگوں کے اپنا گھر بنانے کے خواب کو حقیقت بنا رہا ہے۔

بہت سے لوگ اس حقیقت کو نظرانداز کرنے کا انتخاب کرتے ہیں کہ ان کا خوابوں کا گھر بن کیسے رہا ہے جوکہ اکثر ماحولیات کو نقصان پہنچا کر اور قوانین کو توڑ کر تعمیر ہوتے ہیں۔ تو جب ان لوگوں کا خواب چکناچور ہوجاتا ہے (جوکہ اکثر سیاست اور کچھ مثالوں میں سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں) تو یہ مکافاتِ عمل کی ایک مثال ہے۔

ایک متضاد نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ ان اسکیمز کے رہائشی عموماً اشرافیہ نہیں ہوتے۔ وہ عام طور پر اعلیٰ متوسط طبقے کے خاندان ہوتے ہیں جو آمدنی کی تقسیم کے پانچویں اور 15ویں فیصد کے درمیان کماتے ہیں لیکن ان کی اتنی آمدنی نہیں ہوتی کہ کراچی، لاہور یا اسلام آباد کے شہر کے مراکز کے قریب منظم علاقوں میں اپنا گھر بنا سکیں۔

جن محلوں اور علاقوں میں وہ پلے بڑھے ہوتے ہیں، وہاں سہولیات کا فقدان ہے اور وہ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ نسبتاً سستا رہائشی آپشن تلاش کرنے کے لیے وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس رہائشی اسکیم پر وہ گھر خریدنے کا سوچ رہے ہیں وہ کس طرح وجود میں آیا ہے یعنی وہ یہ نہیں سوچتے کہ کہیں یہ کسی دیہاتی سے اس کی زمین چھین کر تو تعمیر نہیں کیا گیا یا یہ کسی پہاڑی کو چپٹا کرکے بنایا گیا ہے یا یہ پانی کے راستے پر تو تعمیر نہیں کیا گیا۔

اب اس پر انحصار کرتے ہوئے کہ آپ کتنی ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں، دونوں نقطہ نظر کو درست مان سکتے ہیں۔ لوگوں کو شعور ہونا چاہیے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں اور کیا پروجیکٹ منصفانہ طریقے سے بنایا گیا ہے یا نہیں۔ ایک ایسے ملک میں عوام کا لاعلم ہونا بہت ہی مشکل ہے کہ جہاں ہفتے میں 7 دن 24 گھنٹے خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ عقل رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ بتا سکتا ہے کہ فلاں پروجیکٹ جوکہ دریا کنارے بنایا گیا ہے، مستقبل میں سیلاب کی زد میں آسکتا ہے۔

لیکن اگر ہم زیادہ ہمدردی سے اس معاملے کو دیکھیں تو اپنے گھر کی خواہش رکھنے والا گھرانہ، درحقیقت اس آلودہ تالاب کی چھوٹی مچھلی ہے۔ اس سے بھی بڑی مچھلیاں ہیں جنہوں نے زمین اور مکان کو معاشرے اور ماحولیات کے لیے نقصان دہ بنا دیا ہے۔

ان بڑی مچھلیوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو بچت کے نام پر سالوں تک پلاٹس کو اس امید پر رکھتے ہیں کہ وہ زیادہ منافع کے ساتھ بیچیں گے اور ایسا کرتے ہوئے وہ ان لوگوں کو اپنی زمین لینے سے حق سے محروم کرتے ہیں جو واقعی وہاں رہنا چاہتے ہیں۔

ان لوگوں میں وہ سرمایہ کار بھی شامل ہیں جو صرف پیسہ کمانے کے لیے پلاٹ خریدتے اور بیچتے ہیں جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور ان لوگوں کے لیے گھر بنانا ناممکن ہوجاتا ہے کہ جنہیں واقعی ان کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان میں ڈویلپرز اور ان کے فنانسرز شامل ہیں جو تعمیر کی لاگت کو کم سے کم کرنے کے لیے غلط حربے اپناتے ہیں جن میں ایسی زمین کا حصول بھی شامل ہوتا ہے جن پر تعمیر ماحولیات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

لیکن سب سے بڑھ کر ریاست اس کی ذمہ دار ہے جس کی فعال شمولیت کے بغیر یہ سب ممکن نہیں تھا۔ چاہے ان میں فوج کا کردار ہو جوکہ اپنے افسران کو انعامات کے طور پر زمینوں سے نوازتے ہیں یا راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر یو ڈے اے) یا لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) جیسے محکموں کے مقامی افسران کی بدعنوانی یا نااہلی جو اپنا کام درست طریقے سے نہیں کررہے۔

ان میں وہ سیاستدان بھی شامل ہیں جو یا تو خود زمینوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں یا اپنے دوستوں، خاندان کے افراد یا حامیوں کو ریئل اسٹیٹ سے پیسہ کمانے میں مدد کرتے ہیں اور ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

اگر کوئی واقعی کسی کو موردِ الزام ٹھہرانا چاہتا ہے تو یہ وبال ریاست کے سر جاتا ہے۔ ریاست ان غیرقانونی اقدامات اور دانستہ طور پر ماحولیات کو نقصان پہنچانے میں شراکت دار بنتی ہے جبکہ ان فیصلوں نے ہمیں اتنا کمزور بنادیا ہے کہ آب و ہوا میں معمولی تبدیلی بھی بڑی تباہی کا باعث بنتی ہے۔

کچھ لوگ یہ دلائل دے کر دفاع کرتے ہیں کہ مقامی حکام تو اعلیٰ سطح سے آنے والے دباؤ کے سامنے جھک جاتے ہیں اور اصلاحات لانے کے خواہش مند سیاستدان تو فوج کے سامنے بے بس ہیں یا لوگ یہ بھی بحث کرتے ہیں کہ یہ ڈویلپرز تو ہر حکومت کے ساتھ مل جاتے ہیں۔

تاہم یہ دلائل بالکل بے کار ہیں۔ لوگوں کو ڈویلپرز سے منصفانہ یا اخلاقی رویے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے جو پیشہ ورانہ طور پر منافع کمانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح فوج سے بھی اپنا رویہ بدلنے کی امید نہیں رکھنی چاہیے، کیونکہ وہاں احتساب کا کوئی تعلق نہیں۔ انہیں اپنے منتخب نمائندوں سے توقع کرنی چاہیے کہ وہ مشترکہ مفاد کے لیے فکر کریں لیکن اس وقت ان کے مفادات واضح ہیں۔

زمین کا سماجی اور ماحولیاتی طور پر تباہ کن استعمال، چاہے وہ قانونی طور پر منصوبہ بند کیا گیا ہو یا غیر قانونی طور پر، دونوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عمیر جاوید

لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @umairjav

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔