نقطہ نظر

ایس سی او اجلاس میں عدم شرکت: ’طالبان اپنی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے عالمی تنہائی کا شکار ہیں‘

ایس سی او اجلاس کا دعوت نامہ نہ ملنے پر طالبان حکومت کو مایوسی ضرور ہوئی ہوگی جوکہ روس کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد عالمی سطح پر اپنی سرگرمیاں بڑھانے کے منتظر تھے۔

افغانستان عالمی طاقتوں کے کھیل کا نشانہ نہیں اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی سازش رچی جارہی ہے۔ موجودہ صورت حال کی واحد ذمہ داری افغان طالبان کی عبوری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ان کی پالیسیز ان کے ابتدائی وعدوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ انہوں نے اُن ماہرین اور سیاستدانوں کو مایوس کیا ہے جنہوں نے کبھی انہیں ’طالبان 2.0‘ کا نام دیا تھا اور انہیں 1990ء کی دہائی کے طالبان سے مختلف قرار دیا تھا۔

جب طالبان نے اگست 2021ء میں کابل کا کنٹرول سنبھالا تو انہوں نے وعدہ کیا کہ حالات اب 1990ء کی دہائی سے مختلف ہوں گے۔ انہوں نے ایک روڈمیپ کا اعلان کیا کہ جس میں عام معافی کا اعلان، جامع اسلامی حکومت، شریعت میں خواتین کے حقوق کے احترام، آزادی صحافت کو یقینی بنانے کا اعلان کیا گیا جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعمیری تعلقات برقرار رکھنے اور تعلیم و تعمیر نو میں تعاون کرنے کا بھی عہد کیا۔

تاہم ان تمام دعووں کی قلعی جلد ہی کھل گئی۔ عبوری حکومت طالبان کے زیرِ تسلط ایک سیٹ اپ بن گئی جہاں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم اور کام کرنے سے روک دیا گیا، پریس پر پابندیاں لگائی گئیں، انتہا پسند گروہوں کو کھلی چھوٹ دی گئی جبکہ افغانستان سفارتی طور پر تنہائی کا شکار ہوگیا جہاں اس کے بین الاقوامی تعلقات انسانی امداد اور نقل مکانی پر کنٹرول تک محدود ہیں۔

اس کے باوجود دنیا تقسیم کا شکار ہے جہاں وہ طالبان کے ساتھ صرف انسانی مقاصد کے لیے اور افغانستان سے نقل مکانی کرنے والوں (جوکہ زیادہ تر مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں) کو روکنے کے لیے تعلقات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے یورپی ممالک طالبان سے بات چیت کرتے ہیں۔

روس کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے بعد خوشی کا اظہار کرنے والوں کو مایوسی تو ضرور ہوئی ہوگی کہ جب چین کے شہر تیانجن میں 31 اگست سے یکم ستمبر تک ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں افغانستان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ افغانستان کو ایس سی او میں مبصر کا درجہ حاصل ہے اور یہ میزبان پر منحصر ہے کہ آیا مبصر ممالک کو دعوت نامہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔

افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کو مدعو نہ کرنا چین کا فیصلہ تھا۔ سہ فریقی اجلاس میں شرکت کے لیے چینی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ کابل کے بعد (جس میں پاکستان بھی شامل تھا) یہ امید کی جا رہی تھی کہ ان کے افغان ہم منصب کو سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی اور روس جس نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا، دباؤ ڈالے گا کہ افغانستان بھی اجلاس میں شریک ہو۔

روس کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کے بعد امریکا نے سخت مؤقف اختیار کیا ہے اور اس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1988ء (2011ء) کے تحت طالبان قیادت پر سخت سفری پابندیاں عائد کیں۔ امیر متقی کو تو اسلام آباد کا دورہ کرنے کی بھی اجازت نہیں جہاں وہ کئی بار سرکاری دورے پر آچکے ہیں۔ ان کا نئی دہلی کا دورہ بھی متوقع ہے لیکن واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں اس کے مخالف ہیں جبکہ اس سے بھی حیران کُن بات ان کا ایس سی او اجلاس میں شرکت سے محروم رہ جانا ہے۔

میڈیا میں کئی تشریحات گردش کر رہی ہیں جن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حوالے سے لے کر یہ تجاویز شامل ہیں کہ یہ اقدام طالبان کے خلاف ایک تعزیری کارروائی ہے کیونکہ وہ چین اور پاکستان سے افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

دیگر کا خیال ہے کہ طالبان حکومت کا تکبر اصل وجہ تھا۔ یہ اس تناظر میں کہا جارہا ہے کیونکہ افغانستان کی حکومت نے حال ہی میں آمو دریا طاس میں تیل کی تلاش اور نکالنے کا 25 سالہ معاہدہ ختم کر دیا جو اس سے قبل چینی فرم سنکیانگ سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کمپنی کو دیا گیا تھا جوکہ مقامی طور پر ’افچین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 2023ء کے اوائل میں طے پانے والے 54 کروڑ ڈالرز کے معاہدے کے لیے پہلے سال میں 15 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف طالبان نے چینی فرم کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دیا جبکہ دوسری طرف وہ اسی معاہدے پر وسطی ایشیائی کمپنیز کو مراعات دے رہے ہیں۔ لیکن یہ فرمز بھلا ایک ایسے منصوبے میں سرمایہ کاری کیسے کر سکتی ہیں جو پہلے ہی متنازع ہو چکا ہو جس میں ایک اہم عالمی اقتصادی طاقت کو باہر دھکیل دیا گیا ہو؟

طالبان نے 4 سال تک افغانستان پر حکومت کی ہے، اس کے باوجود وہ عالمی برادری کے ساتھ خیر سگالی پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وسطی ایشیا سے لے کر چین اور پاکستان تک اس کی پڑوسی ریاستیں بھی افغانستان کی کمزور معیشت کو برقرار رکھنے اور علاقائی امن کو یقینی بنانے میں اپنے مفادات کے باوجود باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کی کوشش نہیں کرتیں۔

طالبان نے سفارتی اور جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کے لیے افغانستان کے قدرتی وسائل، معدنیات، زراعت اور پانی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ مگر ان اثاثوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے افغانستان کو بین الاقوامی اصولوں کے ساتھ مطابقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے طالبان نے اپنے اندرونِ خانہ نظام کو 1990ء کے دقیانوسی نظام کے مطابق کردیا ہے جس کے تحت ہمسایوں کے ساتھ ان کی روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پھر وہ کیسے امید کرسکتے ہیں کہ اس بار دنیا ان کے ساتھ مختلف سلوک کرے گی؟

بہت سے ممالک خاص طور پر یورپی ممالک، بے قابو ہجرت اور ایک اور خانہ جنگی کے امکان کے خوف سے بڑی حد تک طالبان کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بےیقینی کی صورت حال برقرار ہے۔

اگر افغانستان میں دوبارہ تنازع کھڑا ہوتا ہے تو طالبان کس کا ساتھ دیں گے؟ کیا وہ دوحہ معاہدے سے پہلے والے وہی پُرتشدد گروپ بن جائیں گے جو القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور خطے اور دنیا بھر میں دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کام کر رہے تھے؟

طالبان پر نہ صرف امریکا بلکہ اس کے قریبی اتحادی چین کی طرف سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بیجنگ اس بارے میں تشویش کا شکار ہے کہ آیا طالبان پر طویل مدتی معدنیات کی کھدائی اور بین الاقوامی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے حوالے سے بھروسہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں کیونکہ حکومت کے ساتھ اس کے ابتدائی تجربات ٹھیک نہیں رہے۔ کابل میں حالیہ سہ فریقی اجلاس جس میں افغانستان، پاکستان اور چین شامل تھے، اس حوالے سے اہم تھا۔

چین نے سی پیک سے افغانستان کو خارج کردیا ہے اور وہ اب بھی اپنے علاقائی عزائم کو آسان بنانے کی کوشش کرتے ہوئے نئے دو طرفہ جغرافیائی اقتصادی راستے تلاش کر رہا ہے۔ لیکن اس طرح کے تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لیے طالبان کو پہلے خود کو اپنے ہمسایہ ممالک اور وسیع تر علاقائی ممالک کے لیے قابلِ اعتماد ثابت کرنا ہوگا۔

طالبان کے کچھ رہنما کو اس بات کا ادراک ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ بامعنی روابط کا قیام صرف اقتصادی اور تجارتی شراکت داری سے ممکن نہیں جبکہ اس کے لیے سماجی اور سیاسی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان قیادت بالخصوص ملا ہیبت اللہ میں اس حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے یا کیا وہ اسے سمجھنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

جب تک وہ حالات سے موافق نہیں ہوتے تب تک افغانستان تنہائی کا شکار رہے گا اور مصائب میں پھنسا رہے گا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

محمد عامر رانا

لکھاری سیکیورٹی تجزیہ نگار ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔