نقطہ نظر

’حیدر آباد سازش کیس‘ جس نے ملک میں انتقامی سیاست کا نیا باب کھولا

حیدرآباد جیل کے تاریخی ہال میں جہاں مقدمے کی کارروائی کے دوران کئی دلچسپ واقعات رونما ہوئے وہیں اس نے قوم پرست، جمہوری و سیاسی بساط کو پلٹا۔

بلوچستان مسئلے کے خصوصی سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


ججز کے بیٹھتے ہی نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ عبد الولی خان اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’آپ لوگوں کو یہاں دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ ہم سمجھتے تھے کہ جج ہمیں انصاف دیں گے لیکن حکمرانوں نے ہماری طرح آپ کو بھی جیل بھیج دیا۔ اس مشکل میں ہمیں آپ کے ساتھ ہمدردی ہے‘۔

عبدالولی خان کے اس بیان پر عدالت میں قہقہے بلند ہوگئے۔


’8 فروری 1975ء کی شام کو دنیا بھر کے ریڈیو اسٹیشنز سے یہ خبر نشر ہوئی کہ پشاور یونیورسٹی کے ہسٹری ہال میں منعقدہ ایک تقریب میں دھماکا ہوا ہے جس میں پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر اور سینئر وزیر حیات محمد خان شیر پاؤ جاں بحق ہوگئے۔ جب یہ خبر نشر ہوئی تو صدر سردار داؤد نے فوری طور پر اجمل خٹک سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور کہا کہ یہ کام آپ لوگوں نے کیا ہے جس پر اجمل خٹک نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

’اجمل خٹک کے انکار کے باوجود اس واقعے کے دوسرے ہی دن اس تخریب کاری کے دونوں مرکزی کردار، چارسدہ کے برج نامی گاؤں کے بلا خان (حبیب اللہ خان) اور اس کے بھائی معز اللہ خان کے ساتھ افغانستان فرار ہوگئے تھے۔

’پورے واقعے اور سانحے کی روداد یہ ہے کہ منصوبہ بندی کے مطابق انور اور امجد نے ایک ٹیپ ریکارڈر میں بم نصب کرلیا تھا۔ پروگرام یہ تھا کہ 7 فروری کو ٹیکنیکل کالج پشاور میں طلبہ کی ایک تقریب جس میں حیات محمد خان شیرپاؤ شرکت کررہے تھے، بم دھماکا کرنا تھا۔ لیکن اس دن ہوا یہ کہ پشاور یونیورسٹی کے صدر افراسیاب خٹک بھی اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے چنانچہ منصوبے پر عمل نہ ہوسکا۔

’اس تقریب کے دوسرے دن شیر پاؤ ہسٹری ڈپارٹمنٹ کی نومنتخب اسٹوڈنٹ یونین کی تقریب حلف برداری میں مدعو تھے انور اور امجد نے ٹیپ ریکارڈر روسٹرم پر مائیک کے ساتھ بہ ظاہر اس غرض سے رکھ لیا تھا کہ شیر پاؤ کی تقریر ریکارڈ ہو۔ جب شیر پاؤ تقریر اور سوالات و جوابات کے لیے روسٹرم پر آئے تو ایک زور دار دھماکا ہوا اور حیات محمد خان شیر پاؤ دھماکے کی نذر ہوگئے۔

’اس دن بارش ہورہی تھی۔ دھماکے سے پہلے امجد اور انور بے خبری کے عالم میں کھیتوں سے ہوتے ہوئے چارسدہ روانہ ہوئے۔ راستے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی اور لوگوں کی تلاشی ہورہی تھی۔ جب یہ دونوں چارسدہ سے کچھ فاصلے پر عمومی سڑک پر آئے تو پولیس انہیں شک کی بنیاد پر گرفتار کرکے تھانے لے گئی۔

’پولیس اور بھی کئی لوگوں کو گرفتار کرکے لائی تھی۔ وہاں تھانے میں انہیں علم ہوا کہ شیر پاؤ جاں بحق ہوچکے ہیں۔ انہوں نے وہاں بلا خان کے ایک نوکر کو دیکھا اور اسے اشارے سے اپنے قریب بلا لیا اور ان سے بلا خان کو خبر دینے کو کہا۔ بلا خان ایک نڈر اور ہوشیار آدمی تھے۔ وہ آئے پولیس کو ڈرایا دھمکایا کہ تم لوگوں نے میرے معزز مہمانوں کو کیوں گرفتار کیا ہے۔ یوں انور اور امجد رہا ہوگئے اور بلا خان نے انہیں اپنے اور اپنے بھائی معز اللہ خان کے ہمراہ براستہ مہمند ایجنسی افغانستان روانہ کیا۔

’انور اور امجد نے شروع کے چند دن شمالی افغانستان میں قندوز وغیرہ کے علاقوں میں چھپتے چھپاتے خاموشی کے دن گزارے۔ چونکہ افغانستان ایک پسماندہ اور تنگ وترش ملک تھا جہاں کابل ایک ایسا شہر تھا جو زندگی گزارنے کے قابل تھا، اس لیے یہ دونوں چند دن کے بعد کابل چلے آئے اور کابل میں ہمارے ہاں (اجمل خٹک کی رہائش گاہ) قیام کیا۔

’دوسری جانب پاکستان میں پولیس کو راستے میں دو شیروانیاں پڑی ملیں اور ان شیروانیوں کے توسط سے اس درزی کے پاس پہنچ گئی جس نے ان کی سلائی کی تھی۔ تفتیش درزی سے ہوتے ہوئے ان کے مالکان تک پہنچ گئی۔ یعنی باچا اور امجد باچا کے نام منظر عام پر آگئے۔ اس قتل کا الزام بیگم نسیم ولی خان، اسفند یار ولی اور نثار محمد خان آف گل آباد پر لگا۔

’نثار محمد خان خود پیپلزپارٹی میں شامل تھے اور شاید سیاسی اور خان ہونے کی وجہ سے حیات محمد خان سے شاکی تھی۔ نثار محمد خان اور اسفند یار گرفتار کیے گئے جنہوں نے سختی کے نتیجے میں اعتراف بھی کرلیا۔

’البتہ نثار محمد خان اور اسفند یار پشتو زبان کے محاورے کے مطابق ‘املوک کے مول’ یعنی مفت میں ماخوذ ہوگئے۔ کمانڈر حیات اللہ کے مطابق 1973ء میں ولی خان نے انہیں تاکید کی تھی کہ پختون زلمے کی کارروائیوں سے دو افراد کو کسی طور کوئی خبر نہ ہو یعنی ایک اسفند یار ولی اور دوسرے افراسیاب خٹک۔ اگرچہ افراسیاب بہ ظاہر کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی کی بنیاد پر تمام باتوں سے آگاہ تھے اور عبدالولی خان اصلیت جانتے تھے‘۔

یہ اقتباس جمعہ خان صوفی کی کتاب ’فریب ناتمام‘ سے لینا پڑا کیونکہ بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد کی تاریخ ہی ایسی ہے جسے محض ذاتی یادداشت اور سنی سنائی بات پر نہیں لکھا جاسکتا۔

جمعہ خان صوفی کی کتاب کے 5 ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں لیکن میں ان سے معذرت سے کہوں گا کہ وہ اپنے تاثرات اور مشاہدات لکھتے ہوئے بہت آگے بڑھ گئے۔ حقائق بیان کرتے ہوئے ان پر تلخی غالب آگئی۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جمعہ خان صوفی سے میری پہلی ملاقات مارچ 1978ء میں ہوئی تھی۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں، میں جس ہفت روزہ ‘معیار’ میں کام کرتا تھا، اس پر پابندی لگ چکی تھی۔ ہفت روزہ معیار کے مدیر اشرف شاد میری نیشنل عوامی پارٹی قیادت سے قربت سے واقف تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ ہم ایک نیا رسالہ نکال رہے ہیں، آپ کابل چلے جائیں، اجمل خٹک وہاں آپ کی میزبانی بھی کریں گے اور رہنمائی بھی’۔

اس زمانے میں کابل جانا مشکل کام نہ تھا۔ باقاعدہ کراچی کے افغان قونصل خانے سے ویزا لیا۔ بہ ذریعہ ٹرین پشاور پہنچا جہاں اجمل خٹک کے ایک معتمد ڈاکٹر شیرافضل ملک کے توسط سے پشاور سے کابل جانے کا انتظام ہوا۔ اس زمانے میں سرکاری ٹرانسپورٹ کی بسیں چلتی تھیں۔ پشاور سے کابل کا کرایہ صرف 50 روپے تھا اور سفر صرف 8 گھنٹے کا تھا۔ تاہم اس دور میں طالبان کی ہلکی پھلکی کارروائیاں شروع ہوچکی تھیں۔

بس میں شاید میں واحد پاکستانی سوار تھا۔ دریائے کابل کے ساتھ ساتھ جلال آباد میں کھانا کھانے کے بعد کابل پہنچا تو شام ہورہی تھی ایک پبلک کال آفس سے اجمل خٹک کے گھر فون کیا۔ پتا لے کر پہنچا تو اجمل خٹک کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ ہاں جمعہ خان صوفی میزبانی کے لیے موجود تھے۔

جمعہ خان صوفی طالب علمی کے زمانے سے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) بلکہ کمیونسٹ پارٹی سے زیادہ قریب تھے۔ انہی کی ہدایت پر وہ 1970ء کی دہائی کی ابتدا میں کابل آگئے تھے۔ سردار داؤد کی حکومت ختم ہوئی تو وہ ماسکو نواز حکومت کے بھی انتہائی قریب تھے۔ کابل میں افغان صدر نور محمد ترکئی سے انٹرویو کا اہتمام صوفی جمعہ کے توسط سے ہی ہوا تھا۔

واپسی پر میں نے ایک کتاب ‘طورخم کے اس طرف’ لکھی تھی جس کی تقریب رونمائی کراچی پریس کلب میں ہوئی تھی۔ مہمان خصوصی ہمارے مارکسسٹ استاد سید سبط حسن اور صدارت شیر محمد مری عرف جنرل شیروف نے کی تھی۔ یہ لیجیے میں ایک بار پھر موضوع سے بھٹکتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

یوں بھی فیض احمد فیض صاحب کی زبان میں ’اپنے حوالے سے گفتگو کو بیان کرنا ایک بور بات ہے‘، مگر بہرحال یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ افغانستان میں جو اتار چڑھاؤ آتے رہے، مجھے اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

1989ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور میں بھی کابل کا سفر کیا۔ پھر حامد کرزئی کے زمانے میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بھی بہ حیثیت صحافی وہاں جانے کا موقع ملا۔ ہاں میں نے کوشش ضرور کی مگر طالبان دور میں جانے کا کوئی راستہ نہیں مل سکا۔ اپنے پس منظر کے سبب راستہ نکلتا بھی تو کیسے؟

اس سے آگے نہیں بڑھوں گا کہ پہلے ہی ایک کے بعد دوسری تمہید نے اتنی طول دے دی ہے کہ بلوچستان کی 5ویں تحریک پس منظر میں چلی گئی ہے۔

حیات محمد شیر پاؤ کی ہلاکت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے نیپ پر پابندی لگادی۔ اس وقت کی سپریم کورٹ آف پاکستان جس کے سربراہ چیف جسٹس حمود الرحمٰن اور جس کے اراکین جسٹس انوار الحق اور جسٹس یعقوب خان نے نیپ پر پابندی کو جائز قرار دیا جس کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر جسٹس اسلم ریاض کی سربراہی میں ایک 4 رکنی ٹریبونل تشکیل دیا گیا۔ دلچسپ اور عجیب اتفاق ہے کہ اس ٹریبونل کے لیے عدالتی کارروائی کے لیے بھی سندھ کا شہر حیدرآباد منتخب کیا گیا جہاں کم وبیش دو دہائی قبل پنڈی سازش کیس چلا تھا۔

یہاں ایک اور دلچسپ اتفاق اپنی ذات کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ دو سال بعد اسی حیدرآباد جیل اور اسی بیرک میں مجھے بھی 1978ء میں جنرل ضیا الحق کی فوجی عدالت سے صحافیوں کی تحریک کے حوالے سے اسیر زنداں رکھا گیا۔

حیدر آباد سازش کیس چھ پھاٹکوں کے اندر چلتا تھا۔ ملاقاتوں پر کوئی زیادہ پابندیاں نہیں تھیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے سابق سیکریٹری مجید بلوچ کی ہمراہ ایک دن مجھے بھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ عدالت میں پہنچے تو مقدمے کی کارروائی جاری تھی۔

مقدمے کی کارروائی کیا ایک شور و غوغا تھا۔ استغاثہ یعنی حکومت کے وکیل کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے یحییٰ بختیار تھے اور وکیل صفائی میاں محمود علی قصوری تھے جو پنجاب نیپ کے صدر رہ چکے تھے لیکن 1970ء میں جب بھٹو کی لہر چلی تو پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ لاہور سے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی خالی نشست پر رکن قومی اسمبلی اور وزیر قانون بھی بنے مگر 1973ء کے آئین کی ابتدائی تیاریوں میں چند اختلافات کے سبب مستعفی ہوگئے۔ یوں 1973ء کے آئین کے خالق ہونے کا اعزاز ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کو مل گیا۔

عدالت کے اندر نظر دوڑاتے ہی مجھے ایسا لگا کہ گویا میں خود بھی قید میں ہوں۔ ملاقاتیوں اور قیدیوں کے درمیان ایک لوہے کی دیوار تھی۔ جج صاحبان اور ملزمان بھی مشکل سے نظر آئے۔ کارروائی ختم ہوئی تو ملاقاتیوں کے کمرے میں پہلی بار میر غوث بخش بزنجو سے تعارف ہوا۔ میر صاحب سے ان کے لیے ان کا ملاقاتی ایک مرتبان مچھلیاں لایا ہوا تھا۔ میر صاحب مرتبان میں ہاتھ ڈال کر مرچولی مچھلی مزے لے کر کھا رہے تھے۔

بہ طور صحافی اپوزیشن خاص طور پر نیپ میری بیٹ تھی۔ میں نے میر صاحب سے انٹرویو کے لیے کہا تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، ’تم تو بھٹو کے رسالے میں کام کرتے ہو، کیوں اپنی نوکری کے پیچھے پڑے ہو، انٹرویو چھوڑو! یہ میرا کورٹ میں دیا ہوا بیان چھاپ دو‘۔ آج کی طرح سیاست اور صحافت پابندی نہیں تھی تو پیپلزپارٹی کے ترجمان رسالے میں میر صاحب کا بیان لفظ بہ لفظ شائع ہوا۔

حیدرآباد سازش کیس میں 54 ملزمان نامزد تھے جن میں نیپ کی پوری سینٹرل کمیٹی شامل تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے نیپ کے پشاور کنونشن میں جو قرارداد پاس کی تھی وہ بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔ ان 54 ملزمان میں سے چند کا تعلق پنجاب سے تھا جن میں سید قسور گردیزی اور حبیب جالب کے نام مجھے یاد آرہے ہیں، باقی کا تعلق بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد سے تھا۔

عوامی شاعر حبیب جالب کو جس دن گرفتار کیاگیا، اس دن ان کے بڑے بیٹے کا سوئم تھا۔تھانے میں ایس پی نے کہا، ’جالب صاحب آپ کے پنجاب کے کامریڈوں سے بات ہوگئی ہے، آپ بھی معافی مانگ لیں تو ابھی رہا کردوں‘۔ جالب صاحب سے قریب رہنے والوں کو علم ہے کہ ان کا اپنا ایک خاص مزاج تھا۔ جالب صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، ’معافی مانگ لوں تو چند ماہ زندہ نہیں رہ سکوں گا‘۔ اس پر ایس پی نے ہتھکڑی پہناتے ہوئے کہا، ‘اب اس پر کیا کہہ سکتے ہیں’۔

بلوچستان کے حوالے سے نیپ کی پشتون قیادت اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر ایک الگ مضمون باندھنا پڑے گا۔

حیدرآباد سازش کیس کو سمیٹتے ہوئے بتاؤں کہ اس مقدمے کے نتیجے میں جہاں ایک نئی سیاسی تقسیم ہوئی وہیں انتقامی سیاست کا بھی ایک ایسا باب کھلا کہ جب بھٹو حکومت کا جولائی 1977ء میں خاتمہ ہوا اور 4 اپریل 1979ء کو بھٹو صاحب پھانسی چڑھے تو اس کارروائی پر بھٹو مخالفین جن میں نیپ بھی شامل تھی، نے معروف اصطلاح میں مٹھائیاں نہیں بانٹیں مگر تالیاں ضرور بجائیں۔

نیپ کے سربراہ عبدالولی خان نے 4 اپریل 1979ء کو بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا جو کچھ کہا اسے ضبط تحریر میں لانا نہیں چاہتا۔

حیدرآباد جیل کے اس تاریخی ہال میں مقدمے کی کارروائی کے دوران کئی دلچسپ واقعات رونما ہوئے جن میں سے ایک واقعے کا تحریر کے آغاز میں جج صاحبان کی جانب سے جیل میں مقدمے کی سماعت کرنے پر عبدالولی خان کے تاریخی تبصرے کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے۔

حیدرآباد سازش کیس کی روداد طویل ہے جسے آئندہ کے لیے رکھتا ہوں مگر آپ شاعر عوام حبیب جالب کے اس شعر سے لطف اندوز ہوں جو انہوں نے عدالت میں ججز کے سامنے پڑھا تھا۔

یہ منصف بھی تو قیدی ہیں، ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے

(جاری ہے)


ہیڈر: جسٹس اسلم ریاض حسین، عبدالحکیم خان اور مشتاق علی قاضی پر مبنی بینچ کے سامنے وکلا میاں محمود علی قصوری اور غلام علی میمن کھڑے ہیں جبکہ ملزمان کے باکس میں عبدالولی خان، سردار عطا اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو اور بیرسٹر عزیز اللہ شیخ بیٹھے ہیں۔

مجاہد بریلوی

مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔