’بھٹو صاحب کو جب تک بلوچستان آپریشن کی غلطی کا احساس ہوا، بہت دیر ہوچکی تھی‘
بلوچستان مسئلے کے خصوصی سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
حیدر آباد ٹربیونل کے مقدمے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر جج صاحبان ابھی اپنی نشستوں بیٹھے ہی تھے کہ کالعدم قرار دی جانے والی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے سربراہ خان عبدالولی خان کی رگ ظرافت پھڑکی۔
جج صاحبان کو مخاطب کرتے ہوئے عبدالولی خان نے کہا ’یہ تو سیدھا اور صاف حساب کا سوال ہے، ایک سال میں صرف 5 گواہ بھگتائے گئے ہیں۔ جس رفتار سے یہ مقدمہ چل رہا ہے اس میں تو 200 یا 300 سال تو لگ ہی جائیں گے کیونکہ حکومت کے گواہوں کی تعداد 500 کے لگ بھگ ہے۔ اتنے ہی گواہ ہماری طرف سے آئیں گے یوں 30 یا 40 سال بحث میں لگ جائیں گے۔
’آپ ایسا کریں کہ بھٹو صاحب سے کہیں کہ آبِ حیات لاکر خود بھی پئیں، ججز کو بھی پلائیں اور ہمیں بھی۔۔۔ تاکہ جب فیصلہ آئے تو ہم سب زندہ ہوں‘۔ عبدالولی خان کی اس بات پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی 78 سال تاریخ سازشوں سے بھرپور ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن پر غداری اور ملک دشمنی کے مقدمے چلے اور مرکزی ملزمان کو طویل قید و بند کی سزائیں دی گئیں بعد میں وہ رہا ہوکر سرکاری عہدوں اور اعزازات سے بھی نوازے گئے جبکہ تاریخ کا جبر دیکھیں کہ ان پر مقدمہ چلانے والے حکمران بدنامی اور رسوائی کے ساتھ اقتدار سے نکالے گئے۔
تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھڑوں کا چھتہ ہے۔ بلوچستان مسئلہ کیا ہے کی گرہیں کھولنے بیٹھا، ابھی حیدرآباد سازش کیس پر پہنچا ہی تھا تو پاکستان بننے کے محض تین سال بعد مارچ 1951ء کا پنڈی سازش کیس یاد آگیا جس میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ کشمیر جنگ میں لڑنے والے 17 فوجی افسران کے ساتھ مل کر ایک ایسی سازش کررہی تھی کہ جس میں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا تختہ الٹ کر کیمونسٹ نواز حکومت کو لانا تھا۔
پنڈی سازش کیس بھی حیدرآباد جیل میں چلا جس کے ملزمان جنرل اکبر خان اور بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد سمیت باقی ملزمان کو 5 سے 6 سال کی سزائیں بھگتنا پڑیں۔
فیض احمد فیض کی شہرت تو پنڈی سازش کیس سے پہلے ہی ملکی سرحدوں سے باہر نکل چکی تھی۔ انہیں روس سے لینن امن ایوارڈ ملا اور پھر وہ ایوب خان کے دور میں سرکاری قومی ثقافتی ادارے کے سربراہ بھی بنے۔ جنرل اکبر خان نے رہائی کے بعد دہائی سے زائد عرصہ گوشہ عافیت میں گزارا اور پھر جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو انہیں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر قومی سلامتی بننے کا اعزاز ملا۔
پنڈی سازش کیس کے اصل آرکیٹیکٹ جنرل محمد ایوب خان ہی تھے۔ پاکستان میں لنگڑی لولی جمہوریت کو لپیٹ کر اکتوبر 1958ء میں پہلا مارشل لا لگا کر مکمل اقتدار کے مالک بن گئے۔ اکتوبر 1968ء میں اپنے اقتدار کا 10 سالہ جشن منا رہے تھے تو مشرقی اور مغربی بازو میں ایسی عوامی تحریک چلی کہ بستر سے جا لگے۔
ایوب خان کے اے ڈی سی نے اپنی یادداشتوں میں ان کے آخری دنوں کے بارے میں لکھا ہے کہ کراچی کے میٹروپول ہوٹل میں سرکاری تقریب تھی جہاں انہوں نے صدارتی کلمات کہے۔ ایوان صدر واپس لوٹے تو دل کا دورہ پڑ چکا تھا۔ جانشینی کے لیے جنرل یحییٰ خان کو پہنچنے میں گھنٹہ بھی نہیں لگا۔
سقوط ڈھاکا کے بعد جنرل یحییٰ کو بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1970ء کے الیکشن کے نتائج کو بوٹوں سے روندنے والے یحییٰ خان خود اپنے ہی جرنیلوں کے ہاتھوں اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ آخری دن قید تنہائی میں گزارے۔ باہر نکلتے تو ایک ہجوم ان کا پیچھا کرتا۔
اگرتلہ سازش کیس اگر حقیقت تھا بھی تو بپھرے ہوئے بنگالیوں نے اسے تسلیم نہیں کیا، مقدمے کو چلانے والے چیف جسٹس کو ڈھاکا کی سڑکوں پر پیدل فرار ہونا پڑا۔ اور ہاں یہ بھی المیہ ہے کہ کروڑوں بنگالیوں پر راج کرنے والے بنگلا بندھو شیخ مجیب الرحمٰن جب آمریت کے راستے پر چلے تو مٹھی بھر فوجیوں نے دھان منڈی میں خاندان سمیت قتل کردیا اور 48 گھنٹے ان کی لاش اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔
بچے کچھے پاکستان میں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان میں اقتدار ملا انہیں یقیناً اس بات کا موقع ملا تھا کہ ایک نئے دور کا آغاز کرتے۔ بھارتی قید میں 90 ہزار فوجیوں کی واپسی شملہ معاہدہ، اسلامی سربراہی کانفرنس اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے جیسے کارناموں کے سبب بھٹو اگر اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی جذبے پر قابو پا جاتے تو یقیناً اپنے اقتدار کی مدت پوری کرتے۔
سال نہیں ہوا تھا کہ اپنے نظریاتی ساتھی معراج محمد خان، جے رحیم، مختار رانا، تالپور برادارن، مبشر حسن حتیٰ کہ مصطفیٰ اور حنیف رامے تک کے خلاف انہوں نے محاذ کھول دیا۔ بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کی تحریک یقیناً ایک مقبول تحریک تھی جس میں دائیں بائیں سب ہی ان کے خلاف ڈٹ گئے۔
جولائی 1977ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار ختم ہوا اور اپریل 1979ء میں انہیں پھانسی ہوئی تو ہمالیہ نہیں رویا۔ بھٹو کو پھانسی دینے والے اور 10 سال تک اقتدار کے مالک بننے والے جنرل ضیا الحق کی موت بھی کیسے ہوئی، سب جانتے ہیں۔
یہ لیجیے ایک بار پھر میں اپنے بھٹکنے کا اعتراف کرتا ہوں۔ بلوچسستان مسئلہ کیا ہے کی تاریخ میں جاتے ہوئے حیدرآباد سازش کیس پر آجاتا ہوں۔
بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت کو ختم کرنے پر محض بھٹو کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ نیپ کے قائد خان عبدالولی خان نے ذوالفقار بھٹو کا اقتدار کبھی تسلیم نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں پشاور کنوینشن میں نیپ نے بھٹو حکومت کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
بہرحال بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد کے خاتمے کے باوجود نیپ سیاسی محاذ پر معروف اصطلاح میں کھلی سیاست کررہی تھی مگر حیات محمد خان شیر پاؤ کے قتل کے بعد بھٹو کا نیپ پر پابندی لگانے کے فیصلے اور پھر حیدرآباد ٹربیونل کا قیام ایک ایسا قدم تھا کہ جس کے بعد اسلام آباد میں حکمرانی کے خلاف دو صوبوں یعنی بلوچستان اور صوبہ سرحد میں ایک ایسی لڑائی کا آغاز ہوا کہ جس کا اختتام بھٹو کی حکومت کے خاتمے پر ہی ہوا۔
سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ ایک مثالی منظرنامہ تھا۔ جنرل ضیاالحق کا اقتدار میں آنا بڑی سوچی سمجھی سازش تھی جس کی بنیاد ذوالفقار بھٹو کے مارچ 1977ء کے انتخابات سے قبل ہی رکھ دی گئی تھی۔
خود ذوالفقار بھٹو نے اپنی کتاب ‘اگر میں قتل کردیا گیا’ میں اعتراف کیا ہے کہ انتخابات کے اعلان کے اگلے دن ہی ان کے وزیر رفیع رضا ان سے ملنے آئے۔ وہ اس وقت ان کے خوف سے سفید ہورہا تھا۔ رفیع رضا کو امریکا کا خاص آدمی سمجھا جاتا تھا، انہوں نے بھٹو سے کہا کہ آپ الیکشن ملتوی کردیں۔ انہوں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے جس پر رفیع رضا نے کہا کہ ’اس الیکشن کے نتیجے میں آپ کو ایک خوفناک انجام سے گزرنا پڑے گا‘۔
میں اس وقت پی این اے تحریک میں امریکی کردار کا ذکر نہیں کروں گا کہ اس پر کئی تصانیف میں کہی ان کہی داستانیں لکھی گئی ہیں۔ بانی پاکستان کے بعد پاکستان کے سب سے سحر انگیز سیاستدان اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے کے بعد کتنے بے بس ہوچکے تھے، اس کا ذکر میں اس سلسلے کے اپنے چوتھے بلاگ میں کرچکا ہوں۔
جنرل ضیا الحق کا وزیراعظم بھٹو سے یہ کہنا کہ اسداللہ مینگل کے واقعے کو اپنے ذہن سے کھرچ دیں، کتنی دلیرانہ تنبیہ تھی۔ نیپ کی حکومت کے خاتمے اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کرنے پر غلطی یا شرمندگی کا احساس اس وقت بھٹو کو ہوا جب بہت دیر ہوچکی تھی۔
بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے قریبی مشیر اور مارکسسٹ بی ایم کٹی نے اپنی کتاب ‘60 ایئرز ان سیلف ایگزائل’ میں ذوالفقار بھٹو کے ساتھ اپنی ایک سے زائد ملاقاتوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بی ایم کٹی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اسلامی سربراہی کانفرنس سے قبل وزیراعظم بھٹو کے سیکریٹری افضل سعید خان نے انہیں فوری طور پر لاہور پہنچنے کا حکم دیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کے سبب لاہور میں سخت سیکیورٹی کے انتظامات تھے۔ لاہور میں غلام مصطفیٰ کھر کی گلبرگ کی کوٹھی میں بی ایم کٹی کی ذوالفقار بھٹو سے ملاقات ہوئی۔
بی ایم کٹی کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر حیران رہ گیا کہ وزیراعظم نے کہا کہ میں فوری طور پر میانوالی جیل میں میر غوث بخش بزنجو سے ملوں اور انہیں اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دوں۔
بی ایم کٹی نے میرغوث بزنجو سے اپنی ملاقات اور پھر اس کے بعد کم و بیش 4 ملاقاتوں میں بھٹو کی جانب سے پیش کی جانے والی مفاہمت کی جو تفصیلات لکھی ہیں، اسے ایک الگ باب میں سمیٹنا پڑے گا جسے میں آئندہ کے لیے چھوڑتا ہوں کیونکہ بھٹو کی میرغوث بخش بزنجو کے ذریعے بات چیت اور سمجھوتا کوئی آسان بات نہیں تھی جبکہ اس وقت تک بلوچ اور پشتون قیادت ایک دوسرے سے بہت دور جا چکی تھی۔
پھر جنرل ضیاالحق کا کردار دیکھیں کہ وہ خود پس پردہ حیدرآباد جیل میں عبدالولی خان سمیت نیپ کی قیادت سے رابطہ قائم کرکے یہ پیغام پہنچا چکے تھے کہ فوج حیدرآباد ٹربیونل کو ختم کرنے اور نیپ قیادت کی رہائی میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
(جاری ہے)
مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔
