آزاد کشمیر احتجاج: کیا حکومت اس بار مظاہرین سے کیے وعدے پورے کرے گی؟
یہ واضح تھا کہ حکومت آخرکار آزاد کشمیر میں مظاہرین کے مطالبات کو قبول کرلے گی اور جانی نقصانات اور معاشی و انفرااسٹرکچر کے نقصانات کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے اے اے سی) کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرے گی۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کب اور کیا ان وعدوں کو پورا کیا جائے گا۔ اگر حکومت نے ان کے گزشتہ مطالبات پر کام کیا ہوتا تو شاید یہ خطہ حالیہ بےامنی سے بچ جاتا۔
درحقیقت یہ معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ملک کے دیگر حصوں میں بھی اپنے وعدوں کو پورا کرکے مستقل حل تلاش کرنے کے بجائے محض عارضی طور پر صورت حال کو پُرسکون کرنے کے لیے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔ کچھ معاملات میں تو مظاہرین کی آوازوں کو ہی نظرانداز کیا جارہا ہے۔
مثال کے طور پر جے اے اے سی کے مظاہرے سے چند روز قبل بلوچ لاپتا افراد کے اہل خانہ نے ایک بار پھر اپنا دھرنا ختم کیا اور وفاقی دارالحکومت سے واپس لوٹ گئے۔ لاپتا افراد کے پُرسکون اہل خانہ اتنے بھی خوش قسمت نہیں تھے کہ ریاستی اداروں کی جانب سے معمولی سی توجہ بھی حاصل کرپاتے۔
ہمیں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حالات سے نمٹنا، عارضی مذاکرات اور پھر جب حالات دوبارہ پُرسکون ہونے لگیں تو مطالبات کو نظر انداز کرنا بند کرنا ہوگا۔ مسائل سے نمٹنے کا یہ طریقہ کار نوآبادیاتی دور کی میراث ہے۔ دولت مشترکہ کی بہت سی ریاستوں کو یہ طریقہ کار وراثت میں ملا لیکن پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو حقیقی تبدیلی یا اصلاح کے بغیر پرانی روش پر عمل پیرا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اس بار اور اس سے پہلے جب آزاد کشمیر میں جب جے اے اے سی نے احتجاج کیا تو حکومت نے یہی طریقہ کار اختیار کیا۔
ملک میں کئی احتجاجی تحریکیں چل چکی ہیں جن میں گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی، پشتون تحفظ موومنٹ، گوادر میں حق دو تحریک، سندھ بچاؤ تحریک اور بلوچ یکجہتی کمیٹی شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ سادہ سا رہا ہے، آئینی، معاشی اور سیاسی حقوق اور سب سے اہم انہوں نے عزت کے ساتھ جینے کا حق مانگا ہے۔
ایسی تمام حقوق کی تحریکوں میں جو چیز مشترک رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر اشرافیہ کی مخالف ہیں اور سیاسی و معاشی مراعات کی مخالفت کرتی ہیں۔ تاہم ریاست اختلاف رائے کا جواب طاقت سے دیتی ہے۔
اس طرح کے احتجاج کو عالمی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور مقامی طور پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں جو کچھ ہوا وہ اشرافیہ کے خلاف مظاہرے تھے جنہیں ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے پاکستان میں بھی اشرافیہ کو ملنے والی مراعات کے خلاف اسی طرح کی عدم اطمینان کی صورت حال دیکھی ہے اور اس کی تازہ ترین مثال آزاد جموں و کشمیر کے حالات تھے۔
اس کے باوجود بھارت کی طرح پاکستان میں بھی حکام کو فائدہ حاصل ہے۔ ملک کا نسلی اور مذہبی تنوع اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دور دراز یا اقلیتی علاقوں میں ہونے والے مظاہرے عام طور پر عوام کی طرف سے زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکیں۔
حکومت ان احتجاجی تحریکوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھ کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ وہ بڑے شہروں یا مرکزی علاقوں تک نہ پھیلیں جہاں یہ رائے عامہ پر زیادہ اثرانداز ہوسکتی ہیں۔
اسلام آباد میں واقع نیشنل پریس کلب کا حالیہ واقعہ جہاں پولیس نے احاطے پر دھاوا بولا، کشمیری مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور جس طرح صحافیوں کو مارا، اسی حربے کا حصہ ہے کہ جس کے تحت حقوق کی تحریکوں خاص طور پر کم طاقتور علاقوں سے تعلق رکھنے والی تحریکوں کو مرکزی دھارے کی عوام کی توجہ سے دور رکھنا ہے۔
حکومت اور ریاستی عناصر نہ صرف مسلح اقدامات کرتے ہیں بلکہ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں پر بیانیے میں بھی ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ خبروں کو سینسر کیا جاتا ہے اور ان تحریکوں کے خلاف مذموم مہم چلائی جاتی ہے اور انہیں غیرملکی فنڈنگ سے چلنے والی سازش قرار دیا جاتا ہے۔
وزارت اطلاعات کی جانب سے قومی اخبارات پر آدھے صفحے اور ٹی وی چینلز پر اشتہارات نے حال ہی میں ایک ’انتباہ‘ کا کام کیا ہے جس نے ہمارے ذہنوں میں ایک نئی کشمکش کا آغاز کیا ہے۔ درحقیقت اختلاف رائے کو قبول کرنے کے بجائے ریاست اسے ایک بڑے، چھپے ہوئے دشمن کے منصوبے کا حصہ بنانے کی کوشش کرتی ہے اور اکثر خوف اور شک پیدا کرنے کے لیے ’ہائبرڈ وارفیئر‘ کا خیال استعمال کرتی ہے۔
اختلاف رائے کرنے والوں کو غیر ملکی ایجنٹ کا نام دیا جاتا ہے اور ان میں این جی اوز، فری لانسرز اور میڈیا پرسنز شامل ہوتے ہیں جو تنقیدی سوالات کرتے ہیں۔ عوام کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ خفیہ معلومات کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں۔
یہ یقینی نہیں ہے کہ ملک کا ایک عام شہری کس قسم کی حساس معلومات رکھتا ہے۔ تاہم حکام کا اصرار ہے کہ یہ بیانیے کی جنگ کا حصہ ہے جبکہ یہ ان علاقوں اور ملک کے باقی حصوں کے درمیان رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں احتجاج ہورہے ہوتے ہیں۔
حالیہ مظاہروں کو حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کا آغاز کئی سال پہلے ہوا تھا۔ مظاہروں کا براہ راست تعلق ان وعدوں سے تھا جو ریاست نے 2023ء میں مظاہرین سے کیے تھے جبکہ وہ وعدے پورے نہیں ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ دولت مند اشرافیہ ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور یہ ملک میں اقتدار کا حصہ ہیں۔ عام لوگ محسوس کرتے ہیں کہ کامیابی کا واحد راستہ بدعنوانی کے ذریعے یا ان اشرافیہ کے ساتھ کام کرنا ہے۔ یہ یقین ان کے غصے اور مایوسی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
حکومت اور جے اے اے سی کے درمیان مذاکرات میں حالیہ تعطل، دوبارہ شروع ہونے سے پہلے اشرافیہ کی گرفتاری کے معاملے پر مرکوز تھا۔ تعطل سے مجبور ہو کر جے اے اے سی نے اپنے احتجاجی منصوبے کو آگے بڑھایا۔
جے اے اے سی کے 38 نکاتی چارٹر کا بنیادی مقصد اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ تھا خاص طور پر کشمیری پناہ گزینوں کے لیے 13 مخصوص نشستوں کا خاتمہ ان کا مطالبہ تھا۔ کمیٹی ان نشستوں کو بدعنوانی اور سیاسی چالبازی سمجھتی ہے اور اس طرح آزاد جموں و کشمیر میں حکومتیں بنانے میں فیصلہ کُن کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ میں سابقہ فاٹا کی نشستوں سے صورت حال کا موازنہ سیاسی جوڑ توڑ کے بارے میں خدشات کو اجاگر کرنے کا ایک اچھا طریقہ ہےجہاں قانون سازوں کو خریدا اور بیچا جاتا ہے اور اسلام آباد کی مرضی کے مطابق حکومتیں بنائی جاتی ہیں یا توڑ دی جاتی ہیں۔ اس کے جواب میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان نشستوں کے خاتمے سے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارت کے پاس آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان جیسے علاقوں کے لیے مخصوص نشستیں ہیں اور اگر پاکستان انہیں ختم کردیتا ہے تو ایسا لگے گا کہ وہ 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارت کے فیصلے کو قبول کرتا ہے۔
جے اے اے سی اس دعوے کو مسترد کرتا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ مخصوص نشستوں کا اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس سے پاکستان کے قانونی مؤقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں بطور شہری آئینی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت ان علاقوں سے ٹیکس لیتی ہے اور سبسڈی میں کٹوتی کرتی ہے لیکن انہیں مناسب آئینی حیثیت نہیں دیتی۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو شہریت کے فوائد نہیں مل پاتے حالانکہ یہ حقوق دینا، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ورزی کیے بغیر ممکن ہے۔
کشمیری مظاہرین کے زیادہ تر مطالبات بنیادی طور پر میونسپل سطح کے مسائل تھے جن میں صحت، تعلیم اور صفائی شامل تھے۔ اس کے باوجود پاکستان کی حکمران اشرافیہ صوبوں میں مقامی حکومتوں کے نظام کو تباہ کر چکی ہے جبکہ یہ اپنے لیے محصولات برقرار اور بادشاہوں کی طرح اخراجات کرتی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
