سائنس دانوں نے پہلی بار دائمی تھکاوٹ کی تشخیص کا بلڈ ٹیسٹ تیار کرلیا
برطانوی سائنس دانوں نے پہلی بار دائمی تھکاوٹ جسے طبی زبان میں ’دائمی تھکاوٹ سنڈروم’ (ME/CFS) بھی کہا جاتا ہے، اس کی تشخیص کے لیے خون کا ٹیسٹ تیار کرلیا۔
طبی جریدے ’نیچر‘ میں شائع تحقیق کے مطابق برطانوی ماہرین نے مختصر افراد پر کی جانے والی تحقیق کے بعد نیا بلڈ ٹیسٹ تیار کرلیا، تاہم مذکورہ ٹیسٹ کی تیاری ابھی انتہائی ابتدائی مراحل میں ہے۔
دائمی تھکاوٹ کی تشخیص کے لیے تیار کردہ پہلے بلڈ ٹیسٹ پر جہاں سائنس دانوں نے اظہار اطمینان کیا ہے، وہیں بعض ماہرین نے اس ضمن میں مزید تحقیق کو تیز کرنے پر زور بھی دیا ہے۔
برطانوی سائنس دانوں کی جانب سے دائمی تھکاوٹ سنڈروم کی تشخیص کے لیے پہلے ممکنہ خون کے ٹیسٹ سے قبل اس مرض کی تشخیص کا کوئی طریقہ موجود نہیں تھا۔
دائمی تھکاوٹ کا مرض ہر سال دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور اس مرض سے متاثر ہونے افراد کی تعداد سالانہ ڈھائی کروڑ تک ہے۔
مذکورہ طبی پیچیدگی کی تشخیص کا کوئی طریقہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے ایسی بیماری میں مبتلا افراد کا علاج بھی نہیں ہو پاتا، ماہرین صحت علامتوں کی بنیاد پر مریضوں کو ادویات فراہم کرتے ہیں لیکن اصل معاملے کی حقیقت کا علم نہ ہونے پر بیماری کا باضابطہ علاج نہیں ہو پاتا۔
دائمی تھکاوٹ ایک پوشیدہ مرض ہے جو شدید تھکاوٹ، درد اور دماغی مسائل کا باعث بنتا ہے، دنیا بھر میں ایک فیصد لوگ اس سے متاثر ہیں لیکن ڈاکٹرز اکثر اس بیماری کو جذباتی مسائل سے جوڑ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔
لیکن اب ماہرین کی جانب سے تیار کردہ نئے ٹیسٹ سے مذکورہ بیماری سے متاثر افراد کے علاج کی راہ ہموار ہونے کی امید ہے۔
مذکورہ مجوزہ ٹیسٹ مریض کے خون میں موجود آر این اے یعنی (جینیاتی مواد) کے مخصوص پیٹرن کو دیکھتا ہے اور ایسے سیلز یا کیمیکلز کی نشاندہی کرتا ہے جو دماغ اور جسم کی تھکاوٹ سے متعلق ہوتے ہیں۔
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ تیار کردہ مجوزہ ٹیسٹ 90 فیصد درست نتائج دے سکتا ہے، تاہم ساتھ ہی ماہرین نے مذکورہ ٹیسٹ کی تیار کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ابھی مذکورہ مجوزہ ٹیسٹ تیاری کے انتہائی ابتدائی مراحل میں ہے، دوسرے مرحلے میں مزید افراد پر تحقیق کرکے ٹیسٹ کے نتائج دیکھے جائیں گے، جس کے بعد ایک ٹیسٹ کا فارمولہ تیار کرکے اسے ابتدائی طور پر چند ممالک میں متعارف کرایا جائے گا۔