ٹرمپ امن کے علم بردار قرار، خوشامد یا سفارت کاری؟
جنگ بندی، تعمیر نو و بحالی کے منصوبے اور جنگ کے بعد کی سفارت کاری جس میں تھکاوٹ عیاں تھی، یہی وہ موضوعات تھے جن کے لیے مصر کے شہر شرم الشیخ میں سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ لیکن جب وزیرِاعظم شہباز شریف نے مائیک سنبھالا تو ماحول یکدم بدل گیا۔ جو پہلے سنجیدہ تھا، ڈرامائی بن گیا۔
غزہ کے مستقبل پر گفتگو کے لیے سر جوڑنے والے عالمی رہنماؤں کے سامنے پاکستانی وزیرِاعظم نے کوئی سفارتی یا ریاستی پالیسی بیان نہیں دیا بلکہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور تعریفوں کے پُل باندھے۔
انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ’امن کا علم بردار‘ قرار دیا، انہیں نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کی بات کی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ کو روکنے کا سہرا بھی انہیں کو دیا۔ جہاں ٹرمپ خود پرست مسکراہٹ کے ساتھ یہ سب سنتے رہے وہیں کانفرنس ہال میں باقی سب لوگ ششدر اور الجھن میں مبتلا ساکت نظر آئے۔ تالیاں بھی کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ بجائی گئیں لیکن یہ واقعہ خبروں میں فوراً چھا گیا۔
روایتی سفارتی معیارات کے اعتبار سے وزیرِاعظم شہباز شریف کے ریمارکس معقول نہیں تھے۔ اس ہال میں موجود کوئی بھی رہنما چاہے مصری صدر السیسی ہوں، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون یا ترک صدر رجب طیب اردوان، کسی کا لہجہ بھی اس قدر خوشامدی نہیں تھا۔
ایک ایسا فورم جو سنجیدہ اور با وقار عالمی مکالمے کے لیے تھا، وہاں وزیرِاعظم کی جذباتی تقریر، ڈرامائی اور بے محل اداکاری لگ رہی تھی جو مذاق کی طرح محسوس ہوئی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر، یہ حکمتِ کارگر ثابت ہوئی۔ کم از کم اس ایک شخص کے لیے یہ کام کرگئی جس کی خوشنودی سب سے اہم تھی یعنی ڈونلڈ ٹرمپ!
تقریر غیر معقول مگر کامیاب؟
ٹرمپ جن کی سیاست تعریف اور توجہ سے چلتی ہے، ان کے لیے شہباز شریف کے الفاظ باعثِ شرمندگی نہیں تھے بلکہ یہ انہیں توانائی بخشنے کا ذریعہ بنے۔ ٹرمپ کی لین دین پر مبنی طرزِ سفارت کاری میں خوشامد کو دھوکا دینا نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان کے لیے تو یہ ایک کرنسی ہے۔ ان کے لیے زیادہ مبالغہ آمیز تعریف کا ایک جملہ، پالیسی کے ایک مکمل پیراگراف سے زیادہ مؤثر ہے۔ اور ایک خود پسند شخص کو تعریف ہی حقیقی سفارت کاری کی طرح محسوس ہوتی ہے۔
سیاسی ماہرینِ نفسیات اس رویے کو ’خود پسند انعامی دائرہ‘ (narcissistic reward loop) کہتے ہیں جوکہ ایک ایسا ذہنی عمل ہے جس میں تعریف تعاون کو مضبوط بناتی ہے، چاہے اس کا کوئی حقیقی مطلب ہو یا نہ ہو۔ اس لمحے میں ہو سکتا ہے کہ وزیرِاعظم نے پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات کو آگے نہ بڑھایا ہو لیکن انہوں نے ایک اور مؤثر کام ضرور کیا جو یہ تھا کہ انہوں نے خود کو اور بالواسطہ طور پر پاکستان کو، ٹرمپ کی امن کی کہانی کا حصہ بنایا۔ یوں تقریر کا غیرمعقول ہونا ہی اُس کی کامیابی کا ذریعہ بنا۔
مصر میں جو کچھ ہوا اسے اسپیچ تھیوری میں ’Perlocutionary misfire‘ کہا جاتا ہے یعنی جب کوئی شخص جو کہتا ہے اس کا نتیجہ اس کی منصوبہ بندی سے مختلف ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ مثبت اثرات مرتب کرتا ہو۔ شہباز شریف شاید اپنے میزبان کی تعریف کرنا چاہتے تھے اور مصروف اجلاس میں تھوڑی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اس کے بجائے، وہ اس جغرافیائی سیاسی تقریب میں سب سے زیادہ چرچا کیے جانے والے رہنما بن گئے۔ جہاں مبصرین نے ان کا مذاق اڑایا وہیں وہ ٹرمپ کی نظروں میں آگئے۔
جسے باقی دنیا نے غلطی کے طور پر دیکھا، ٹرمپ کے نزدیک ان کے الفاظ میں ان کے لیے حمایت نظر آئی۔ اور ایک ایسی دنیا جہاں سفارت کاری خود پسندی پر مبنی ہے، یہی فرق سب سے زیادہ اہم ہے۔
ایسا رویہ کہ جس میں بات کا مطلب غلط سمجھا جائے لیکن نتیجہ پھر بھی مثبت نکل آئے، تعلقات عامہ کی دنیا میں ’فائدہ مند غلط فہمی‘ کہلاتا ہے۔ اس میں مقرر کا ارادہ اور سامعین کا تاثر مختلف ہوتا ہے لیکن یہ غلط فہمی اصل میں تقریر کرنے والے کو زیادہ توجہ یا حمایت حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ یہ میڈیا کے دور میں غلط پیغام رسانی کی ایک عجیب لیکن کامیاب شکل ہے۔
وزیرِاعظم شہباز شریف کی تقریر نے شاید پالیسی ساز حلقوں کو قائل نہ کیا ہو لیکن یہ ضرور ہوا کہ اُن کے الفاظ خبروں کی شہ سرخیاں بن گئے خاص طور پر پڑوسی ملک بھارت میں۔۔۔ یہ ایک ایسا منفرد لمحہ تھا کہ جب ایک ایسی سربراہی اجلاس جس میں امریکا اور مصر کی سیاسی حکمتِ عملیوں کا غلبہ تھا، پاکستان خود کو نمایاں بنا گیا۔
بہت سے مبصرین کے لیے یہ لمحہ تضحیک آمیز تھا کہ ایک جوہری طاقت رکھنے والے ملک کا وزیر اعظم ایک ایسے صدر کی خوشامد کررہے تھے جو ریئلٹی ٹی وی کے اپنے پس منظر کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
’نتائج سے زیادہ دکھاوا اہم ہے‘
لیکن سیاست بالخصوص 21ویں صدی کے میڈیا کے دور میں، اب پرانی شائستگی اور روایتی اصولوں کی پابند نہیں رہی۔ اب نیت سے زیادہ تاثر اہم ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسے شخص ہیں جن کی خود پسندی ان کی نظریات سے بھی بڑی ہے، انہوں نے ایک ریاست کے سربراہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک مشہور شخصیت کے طور پر ردِعمل دیا جو تعریفوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ وہ مسکراتے رہے، مذاق کرتے رہے اور اشارے سے گویا کہہ دیا کہ اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ گویا دنیا تقریر پر ہنسی لیکن ٹرمپ نے اسے غور سے سنا۔
اور یہیں اصل تضاد ہے۔ وہی غیرسنجیدگی اور مبالغہ آرائی جس نے وزیرِاعظم شہباز شریف کو روایتی سفارت کاروں سے دور کر دیا تھا، اُسی نے اگر صرف چند وقت کے لیے ہی سہی لیکن ایک بار پھر انہیں ٹرمپ کی جذباتی دنیا سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں پالیسی کی جگہ تعریف جبکہ وژن کی جگہ منظوری کی خواہش نے لے لی ہے۔
جو بظاہر ایک سفارتی غلطی لگ رہی تھی، وہ نفسیاتی اعتبار سے ایک حکمتِ عملی پر مبنی کامیابی کی طرح معلوم ہوئی۔ ان کا اندازِ خطاب ایک خودپسند شخصیت کی توثیق کی خواہش کے عین مطابق تھا۔
یہ واقعہ موجودہ دور کی نمائشی سفارت کاری کے ایک بڑے مسئلے کو ظاہر کرتا ہے۔ جدید دور کی بین الاقوامی کانفرنسسز نتائج سے زیادہ دکھاوے پر مرکوز نظر آتی ہیں۔ رہنما ایک دوسرے سے کم اور عوام سے زیادہ مخاطب ہوتے ہیں جبکہ بعض اوقات وہ صرف ایک شخص کی انا کو خوش کرنے کے لیے بولتے ہیں۔
خوشامد جو قائل کرنے کا ایک ناپسندیدہ طریقہ ہوا کرتی تھی، اب توجہ حاصل کرنے کے لیے اس کا کھلے عام استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی دنیا میں ایک تقریر جو چونکا دینے والی لگتی ہے، کامیاب ہو سکتی ہے، اگر وہ لوگوں کی توجہ حاصل کرپائے اور سرخیوں کی زینت بن جائے۔ مواد بےمعنی جبکہ تماشا اہم ہوچکا ہے۔ سفارت کاری اب ایک اسٹیج شو بن چکی ہے۔
شرم الشیخ میں وزیرِاعظم کے الفاظ، غزہ کی تعمیر نو کے عمل کو بدل نہیں سکتے اور نہ ہی وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ازسرِ نو تحریر کریں گے۔ لیکن یہ الفاظ بین الاقوامی سیاست کی بدلتی ہوئی روش کے عکاس ہیں جہاں حماقت بھی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے اور غلط اقدام بھی میڈیا کی حکمت عملی بن جاتے ہیں۔
روایتی معنوں میں، شہباز شریف کی تقریر سفارت کاری نہیں تھی بلکہ یہ ایک مثال تھی کہ چاپلوسی کو جب خود پسند شخصیت کی نظر سے دیکھا جائے تو کیسے یہ کمزوری سے طاقت میں بدل جاتی ہے۔
ہال میں حیرت نمایاں تھی۔ سفارت کار آپس میں سرگوشی کررہے تھے، سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جارہا تھا۔ اس کے باوجود اس ہال میں سب سے اہمیت کا حامل شخص مسکرا رہا تھا۔ اور جغرافیائی سیاست میں کبھی کبھی ایک شخص کی تالیاں، پوری دنیا کے قہقہوں سے زیادہ بھاری ہوتی ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
مصنف برطانیہ کے محکمہ ریونیو اینڈ کسٹمز (HMRC) کے ان ڈائریکٹ ٹیکس پالیسی ڈویژن میں کام کرتے ہیں۔ وہ چیٹم ہاؤس کے کامن فیوچرز کنورسیشنز نیٹ ورک کے رکن اور یونیورسٹی آف شیفیلڈ میں اکنامکس اور فنانس کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
