ٹی ایل پی پر پابندی: کیا ریاست کا مذہبی انتہا پسندی سے متعلق بیانیہ تبدیل ہورہا ہے؟
ریاستی اداروں کی جانب سے انتہا پسند تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے حالیہ کریک ڈاؤن نے کئی دلچسپ سوالات کو جنم دیا ہے۔ آخر کس چیز نے ریاست کو اس قدر فیصلہ کُن کارروائی پر مجبور کیا اور وہ بھی ایک ایسی جماعت کے خلاف جو کبھی اس کی نظریاتی اتحادی سمجھی جاتی تھی؟
کیا یہ اقدام اس بات کی علامت ہے کہ ریاست کا رویہ تمام اقسام کی انتہاپسندی کے حوالے سے واقعی تبدیل ہو رہا ہے؟ یا یہ کسی نظریاتی تبدیلی کی علامت نہیں بلکہ صرف وقتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی پر مبنی ردِعمل ہے؟
ریاست کے موجودہ سخت مؤقف کے باوجود طاقتور اداروں میں کسی گہری نظریاتی تبدیلی کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔ ایسی تبدیلی کے لیے صرف سیاسی عزم ہی نہیں بلکہ قابلِ اعتبار اور پُرکشش متبادل نظریاتی اور ساختی ڈھانچے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے نہ دانشور طبقہ اور نہ ہی وسیع تر معاشرہ اب تک کوئی ایسا مربوط متبادل بیانیہ تشکیل دے سکا ہے جو ریاست کو متاثر کر سکے یا انتہاپسندی کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے نظریاتی خلا کو پُر کر سکے۔
پاکستان میں اب تک اعتدال پسند اسلام کا کوئی مؤثر ماڈل موجود نہیں پھر چاہے وہ جدید سیکیولرزم کی طرف جھکاؤ رکھتا ہو یا مقامی اصلاحی فکر کی جانب، ایسا ماڈل ہی نہیں جو بیک وقت قومی یکجہتی کو یقینی بنائے اور حکمران طبقوں کے مفادات سے بھی ہم آہنگ ہو۔
تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو ریاست نے آئینی اتفاقِ رائے کے بجائے مذہبی و قومی بیانیوں کے ذریعے قوم میں یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئینی یکجہتی کا تصور جو وسائل کی منصفانہ تقسیم، سماجی و سیاسی خودمختاری اور نسلی، لسانی و ثقافتی تنوع پر مبنی ہونا چاہیے، ملک کے طاقت کے مراکز کے لیے کبھی بھی قابلِ قبول نہیں رہا۔
تو پھر متبادل کیا ہے؟ ریاستی ادارے شاید بیانیے کی تشکیل کی براہ راست ذمہ داری لینا چاہیں گے جوکہ طویل عرصے سے مذہبی حلقوں کے اختیار میں رہا ہے۔ اگر ریاست دوبارہ واقعی یہ ذمہ داری لینے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے اہم سوالات پیدا ہوں گے۔
ریاست کس حد تک اس نوعیت کے نظریاتی منصوبے کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے جوکہ بیوروکریٹک معمولات سے یکسر مختلف ہے؟ اور اگر ریاست بیانیہ تشکیل دے دیتی ہے تو وہ نیا بیانیہ کیسا ہوگا؟
ایک ممکنہ وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان کی حکومت اپنے بارے میں کس طرح بات کر رہی ہے۔ نیا نقطہ نظر زیادہ کھل کر بھارت مخالف نظر آتا ہے اور پاکستان کو اس سے الگ کرنے کی کوشش کرتا ہے جسے وہ ’ہندو جنوبی ایشیا‘ کہتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے مذہب کو مذہبی حکومت بنانے کے لیے نہیں بلکہ ثقافتی اور نظریاتی اختلافات کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ آرمی چیف کی حالیہ تقاریر ’دو قومی نظریے‘ پر توجہ مرکوز کرتی ہیں جس میں پاکستان اور بھارت کو ان کے مختلف مذاہب کی وجہ سے الگ الگ قوموں کے طور پر بنایا گیا تھا اور یہ خیال پاکستان کے قیام کی اخلاقی اور تاریخی وجہ ہے۔
اگر ریاست بیانیے کی تشکیل کا مکمل اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے تو نتیجتاً جو بیانیہ وجود میں آئے گا وہ بھارت مخالف زیادہ ہوگا جبکہ اس میں مذہب کا عنصر کم شامل ہوگا۔ ایسی تبدیلی پاکستان کی شناخت اور ساکھ کو نیا رنگ دے گی جوکہ زیادہ عقلی، حقیقت پسندانہ اور عالمی و علاقائی نظام کے بدلتے منظرنامے کے ہم آہنگ ہوگا۔
یہ حکومت کو اجازت دے گا کہ وہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں اپنے سیاسی اور اسٹریٹجک اہداف کے حصول میں مذہب کے استعمال کو کم کرے جبکہ یہ افغانستان، ایران اور عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بتدریج مذہب کے عنصر کو بھی کم کرسکتا ہے۔
تاہم سوال اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس نئے بیانیے کی بحث کے درمیان کیا ریاستی ادارے اپنے تمام سابقہ اتحادیوں یعنی وسیع تر مذہبی نیٹ ورکس کو مکمل طور پر سرپرستی چھوڑنے کے لیے تیار ہیں جن کے سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ میں کئی دہائیوں کے دوران تیزی سے اضافہ ہوا ہے؟
پاکستان میں 248 سے زائد مذہبی جماعتیں جبکہ 40 ہزار سے زائد مذہبی مدارس پائے جاتے ہیں جن کے فارغ التحصیل طلبہ سرکاری و نجی تعلیمی شعبہ جات، سماجی خدمات اور حتیٰ کہ ریاستی بیوروکریسی کی نچلی سطحوں میں متحرک ہیں۔
اگرچہ سیاسی جماعتیں شاید قائم رہیں لیکن ادارے جیسے اسلامی نظریاتی کونسل جو ریاست کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں، انہیں ایسے وسائل کی ضرورت ہوگی جو نئے سرکاری بیانیے کے ساتھ مکمل ہم آہنگ ہو سکیں۔ تاہم یہ ہم آہنگی بالکل یقینی نہیں ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ صرف مذہبی گروہوں کو کنٹرول کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ان خیالات سے نمٹنا ہے جو وہ معاشرے میں پھیلا رہے ہیں۔ ان نظریات کو انتہا پسند اور فرقہ وارانہ گروہوں نے پروان چڑھایا ہے جو عوام کے شعور میں رچ بس چکے ہیں، یہ سیاست کو متاثر کرتے ہیں جبکہ یہ حکومتی بیوروکریسی کی تشکیل بھی کرتے ہیں۔
بالواسطہ طور پر سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اس بات کا اعتراف بھی کیا جن کا کہنا تھا کہ لوگ دراصل ٹی ایل پی کے عقائد سے اختلاف نہیں رکھتے لیکن حکومت نے اس گروپ کے خلاف کارروائی صرف اس لیے کی کیونکہ اس نے تشدد کا سہارا لیا۔
سیاسی و بیوروکریٹک اشرافیہ میں اب بھی بہت سے لوگ یہی جذبات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست میں حقیقی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس لیے ٹی ایل پی کے مسئلے کو کسی وسیع اسٹریٹجک تبدیلی کے مترادف نہ سمجھا جائے۔ ان کی دلیل بھی عملی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹی ایل پی جارحانہ ہوگئی تھی جس سے خاص طور پر پنجاب میں پولیس کے لیے اپنا کام کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
وہاں کچھ نیم خواندہ وکلا اور ٹی ایل پی کے مقامی کارکن پولیس پر مذہبی اقلیتوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ اس کے علاوہ گروپ کی کارروائیوں سے بیرون ملک پاکستان کی ساکھ کو ایک ایسے وقت میں نقصان پہنچ رہا تھا کہ جب حکومت ملک کو معتدل اور مستحکم دکھانے کی کوشش کررہی ہے۔
ریاست کی موجودہ حکمتِ عملی غالباً سڑکوں پر ٹی ایل پی کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنے پر مرکوز ہے جس میں جماعت کے اثاثے منجمد کرنا، کارکنان کے حوصلے پست کرنا، اسے وسیع بریلوی کمیونٹی سے الگ کرنا اور گروپ کے اندرونی اختلافات کو فروغ دینے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
یہ حکمتِ عملی عارضی طور پر صورت حال پُرسکون کر سکتی ہے لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ پالیسی میں پائیدار تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے یا یہ صرف حالات پر فوری طور پر قابو پانے کا ایک اور حربہ ہے۔
یہ اس حکمت عملی سے مختلف ہے جو حکومت نے فرقہ وارانہ اور انتہا پسند گروہوں جیسے سپاہ صحابہ اور کچھ شیعہ عسکریت پسند گروہوں سے نمٹنے کے لیے اپنائی تھی۔ اس وقت مرحلہ وار طریقہ یہ تھا کہ پہلے گروپ پر پابندی لگائی جاتی تھی، پھر حکومت اس کے ساتھ رابطے میں رہی اور پھر آہستہ آہستہ اسے اندر سے کمزور کرنے پر کام کیا گیا۔
قانونی، انتظامی اور جبر پر مبنی اقدامات کے امتزاج سے حکومت ان گروہوں کے ذریعے پھیلائے جانے والے نقصان دہ خیالات کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہی۔ تاہم اس عمل میں تقریباً 20 سال کا وقت لگا جس پر اہم سیاسی اور سماجی لاگت بھی آئی۔
اس طویل تجربے سے سبق حاصل کرنے کے بعد، ریاست نے ٹی ایل پی کے معاملے میں مختلف حکمتِ عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ تیز اور فیصلہ کن طریقہ ہے جس کا مقصد گروپ کے سڑکوں پر مظاہرے کرنے کے اثر و رسوخ اور اس کی تنظیمی رفتار کو مزید مضبوط ہونے سے پہلے ہی ختم کرنا مقصود ہے۔
کم از کم ظاہری طور پر یہی لگتا ہے کہ اس طریقہ کار سے قلیل مدتی فوائد حاصل ہوں گے۔ ٹی ایل پی کے تنظیمی معاملات میں خلل ڈالا گیا ہے، اس کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالی گئی ہے جبکہ اس کا اثر و رسوخ کم ہوگیا ہے۔ لیکن اس گروپ نے جو احساسات پیدا کیے ہیں وہ جذباتی ہیں، مذہب سے منسلک ہیں جبکہ اس نے قومی شناخت کے اخلاقی ملکیت کے تصورات پر مبنی رجحانات پروان چڑھائے ہیں، وہ آسانی سے ختم ہونے والے نہیں ہیں۔
یہ خیالات شاید کسی اور صورت میں واپس آسکتے ہیں جوکہ ممکنہ طور پر زیادہ شدید ہوسکتے ہیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرنے والے نئے مذہبی گروہوں کی طرف سے ان خیالات کو ایک بار پھر اٹھایا جا سکتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
