’لاہور میں اینٹی اسموگ گنز کا استعمال وسائل کا مجرمانہ ضیاع ہے‘
اسموگ کا موسم شروع ہوچکا ہے، آلودہ ہوا کو صاف کرنے کے تجربات کرنے میں پنجاب حکومت کے لیے لاہور ایک بہترین تجربہ گاہ کا کام کررہا ہے۔
2023ء میں سڑکوں کو دھونے اور مصنوعی بارش، پھر 2024ء میں اسموگ ٹاور کی تنصیب اور اب رواں سال فضا میں زہریلے ذرات کو صاف کرنے کے لیے اینٹی اسموگ گنز کا استعمال کیا جارہا ہے۔ توپ سے مماثلت رکھتیں یہ 15 گنز گھروں میں استعمال ہونے والے الیکٹرک اسٹیمرز اور نیبولائزرز کی طرح پانی کو باریک قطروں میں بدلتی ہیں تاکہ شہر کی فضا کو صاف کیا جاسکے۔
پاکستان ایئر کوالیٹی اینیشی ایٹیو کے بانی عابد عمر کے خیال میں یہ اینٹی اسموگ گنز وسائل کا مجرمانہ ضیاع ہیں۔ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی جانب سے ’عارضی‘ اقدام کے طور پر بیان کی جانے والی ان گنز میں سے ہر ایک کی لاگت 4 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد ہے اور انہیں ایک کروڑ 80 لاکھ روپے کے ٹرک پر نصب کیا گیا ہے جبکہ یہ گنز فی ٹرک 3 لاکھ 60 ہزار لیٹر پانی کا استعمال کرتی ہیں۔
اسموگ مٹگیشن پلان 2026ء-2025ء میں اسموگ گنز کا کوئی ذکر شامل نہیں ہے جس سے اس طرح کے عارضی اقدامات کے اصل ذرائع پر سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی لاہور کی ہوا کا معیار پچھلے ہفتے خطرناک سطح تک پہنچا، چین (جہاں یہ گنز پہلی بار استعمال کی گئی تھیں) کا تجربہ درست لگنے لگا جہاں یہ پایا گیا تھا کہ پارٹیکل میٹر 2.5 کے خلاف ہوا کو صاف بنانے میں یہ اقدامات واقعی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
جتنی بڑی مقدار میں پانی کا استعمال ہورہا ہے، اس نے لاہور کے وسائل کے بوجھ میں مزید اضافہ کیا ہے۔ شہر کی زیرِ زمین پانی کی سطح سالانہ اوسطاً 0.8 میٹر کی شرح سے گر رہی ہے جو پنجاب کے اضلاع میں سب سے زیادہ ہے۔
اس سے بھی بدتر صورت حال یہ ہے کہ یہ گنز ڈیزل سے چلنے والی ٹرکوں پر نصب کی گئی ہیں جبکہ یہ گنز جنریٹرز پر چلتی ہیں جو اسی ہوا کو آلودہ کررہی ہیں جسے صاف کرنے کے لیے انہیں بنایا گیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب صوبے نے حال ہی میں سیلاب میں نقصانات کا سامنا کیا ہے، ہر روپیہ قیمتی ہے۔ زیادہ سوچے سمجھے بغیر کی جانے والی فضول خرچی حکومت کے ناقص فیصلے معلوم ہوتے ہیں۔
کمزور عمل درآمد کے باوجود پاکستان کے ماحولیاتی قوانین بالخصوص فضائی آلودگی کے حوالے سے متاثر کُن ہیں۔ پاکستان نے 1983ء میں پاکستان ماحولیاتی تحفظ آرڈیننس کے تحت فضائی آلودگی کو تسلیم کیا تھا۔ 1992ء تک نیشنل کنزرویشن اسٹریٹجی نے آلودگی پھیلانے والے ذرائع کی نشاندہی کی اور 1997ء کے پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایکٹ نے صوبوں کو ماحولیاتی تحفظ ایجنسیز کے قیام کا اختیار دیا جن کی حمایت ٹربیونلز کرتے ہیں۔ ہر صوبے اور وفاقی سطح پر قانونی ماحولیاتی تحفظ کونسلز بھی قائم کی گئیں لیکن ان کا کردار بہت محدود رہا ہے۔
2008ء میں جاپان کی عالمی بین الاقوامی تعاون ایجنسی کی مدد سے پاکستان نے فضائی آلودگی کو شکست دینے کے لیے اپنا پہلا صاف ہوا کا پروگرام شروع کیا جس کے تحت ایئر کوالیٹی کی نگرانی کا نیٹ ورک قائم کیا گیا۔
جاپانی ایجنسی کے جانے کے بعد یہ پروجیکٹ ناکام ہوگیا۔ سامان کا ذخیرہ کرلیا گیا، سینسرز چوری کرلیے گئے جبکہ تربیت یافتہ مشیر بیرونِ ملک کام کرنے چلے گئے۔ 1993ء میں تیار کردہ اور 1999ء میں نظرثانی شدہ قومی ماحولیاتی معیارات کو 2010ء میں اپ ڈیٹ کیا گیا تاکہ ایئر کوالیٹی کے حوالے سے معیارات اس میں شامل کیے جا سکیں۔
سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈز، اوزون، معلق اور باریک ذرات جیسے سیسے اور کاربن مونو آکسائیڈ کو بڑے آلودگی پھیلانے والے عناصر کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
اسموگ کے پاکستان کا پانچواں موسم بننے سے بہت پہلے 2003ء میں لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر پرویز حسن کے ماتحت لاہور صاف ہوا کا کمیشن تشکیل دیا تھا۔ ڈاکٹر پرویز حسن نے بعدازاں 2017ء میں سپریم کورٹ کے پنجاب اسموگ کمیشن کی بھی سربراہی کی تھی۔
ڈاکٹر پرویز حسن ڈان کو بتاتے ہیں، ’عام طور پر، فضائی آلودگی کے ذرائع آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے 2013ء اور 2017ء میں تھے جبکہ تجویز کردہ حل کے اقدامات بھی آج بھی وہی ہیں‘۔ ان کے نزدیک عمل درآمد اور نفاذ سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔ موجودہ سیاسی رہنما زیادہ حقیقی تبدیلی لائے بغیر محض ’بلند و بانگ‘ دعوے کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر پرویز حسن جو کبھی مسئلہ کے حل کے بارے میں پُرامید تھے، اب خود کو حوصلہ شکن محسوس کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’جب لیڈر بات کرتے ہیں تو عام لوگ آلودگی کے مضر صحت اثرات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں، جس میں بہت کم حقیقی بہتری آتی ہے‘۔
اس سب کے باوجود، فضائی آلودگی کی تردید اور بھارت کو موردِ الزام ٹھہرانے سے لے کر اسموگ کی تلخ حقیقت کے ادراک تک، پنجاب حکومت نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ اس نے کافی اعداد و شمار جمع کیے ہیں، آلودگی کے ذرائع کی نشاندہی کی ہے اور پچھلے سال ایک اسموگ مٹگیشن پلان بھی تیار کیا ہے۔ لیکن اب بھی بہت کام باقی ہے۔
پالیسی سائنسی شواہد پر مبنی ہونی چاہئیں، نہ کہ وہ ہوں جو صرف میڈیا میں اچھی لگتی ہیں۔ مزید یہ کہ اب وقت آ چکا ہے کہ بڑے اور زیادہ طاقتور آلودگی پھیلانے والے ذرائع جیسے ٹرانسپورٹ، تیل، سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کے شعبہ جات کے خلاف کارروائی کی جائے جو اب تک قانون کے شکنجے سے بالاتر ہیں۔
ان میں سب سے بڑا چیلنج ٹرانسپورٹ ہے جو فضائی آلودگی میں بہت سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے۔ فرداً فرداً گاڑیوں کے ریئل ٹائم اخراج کو ماپنے کے لیے پورٹیبل ریموٹ سینسنگ ڈیوائسز کا استعمال اس صورت میں اہم ثابت ہوسکتا ہے کہ جب پرانی اور آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کو مرحلہ وار ختم کرنے کی ضرورت ہو تو اخراج سے متعلق قوانین کو نافذ کرنے میں مدد ملے۔
تاہم جب تک کہ ایندھن کے معیار میں بہتری اور انجن کی صحت کو یقینی نہ بنایا جائے تب تک صرف زیادہ اخراج والی گاڑیوں کو ختم کرنا کافی نہیں ہوگا۔ جبکہ ایندھن کے معیار کو بہتر بنانے کی کوششیں ابھی تک زیادہ یکسوئی سے نہیں کی جارہیں۔ پاکستان کو یورو 2 ایندھن کے معیار سے کم از کم یورو 5 کے معیار تک اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر وزیر اعلیٰ مریم نواز اخراج سے نمٹنے کے لیے سخت فیصلے کر سکتی ہیں تو وہ لاہور کی ہوا کے معیار کو بہتر بنانے میں حقیقی اور دیرپا فرق بھی لاسکتی ہیں۔ یہ صرف اسموگ کو شکست نہیں دے گا بلکہ یہ ظاہر کرے گا کہ ان کی حکومت ماحولیاتی مسائل کے بارے میں سنجیدہ ہے۔
یہ باقی پاکستان کے لیے ایک طاقتور مثال قائم کر سکتا ہے اور یہ ثابت کر سکتا ہے کہ مؤثر ماحولیاتی حکمرانی ممکن ہے۔ جہاں دیگر صوبوں نے زیادہ تر صرف اس مسئلے پر بات کی ہے، پنجاب کے پاس ایکشن لینے کا موقع ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@
